انگریز کو بلوچستان پر حکومت کرنے اور اس خطے کے وسائل سے ’’لطف اندوز‘‘ ہونے کے لئے باقی ماندہ ہندوستان کی طرح بالکل طاقت کا استعمال نہیں کرنا پڑا، بلکہ سرداروں کی ان کے قبیلوں پر بالادستی کو انگریز کی قوت سے اس قدر مستحکم کر دیا گیا کہ اب وہ بلوچ سردار جو کبھی ایک جمہوری حکمران کی طرح اپنے قبیلے کے معاملات چلایا کرتے تھے، ایک خونخوار ڈکٹیٹر کی طرح اُبھر کر سامنے آ گئے۔ سردار اب ایک ایسا مطلق العنان سربراہ تھا کہ جس کے حکم کے سامنے پورا قبیلہ بے بس تھا۔ سردار کی ناراضی اب صرف سردار کی ناراضگی نہیں رہ گئی تھی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تاجِ برطانیہ کی قوت سے بھی ٹکرانا تھا۔ ایسی قوت و اختیار اور مکمل بادشاہت کا نشہ اس سے پہلے سرداروں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسی لئے اپنے اس غلبے کے تحفظ کے لئے وہ انگریز پر دل و جان سے فریفتہ اور خدمت گار بن گئے۔ تیرہ جولائی 1876ء کو خان آف قلات خان خدائیداد خان سے معاہدے کے بعد انگریز نے عملاً سرداروں کو خان آف قلات کی عمل داری سے نکال لیا تھا اور وہ مکمل طور پر انگریز حکومت کی چھتری تلے آ چکے تھے۔ رابرٹ سنڈیمن نے آہستہ آہستہ سرداروں کو خودمختار کر کے ان کی عوام پر کُلّی اختیار کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی۔ سب سے پہلے لسبیلہ کو ایک جداگانہ حیثیت دی گئی۔ جام آف لسبیلہ خان کو قلات سے آزاد کر کے اسے ایک آزاد الحاقی حیثیت دلائی گئی۔ رابرٹ سنڈیمن کی قبر بھی اسی لسبیلہ میں ہے جہاں وہ ملیریا کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔ خان سے معاہدے کے بعد انگریز نے خان آف قلات سے کوئٹہ، نوشکی اور بولان کا علاقہ اجارے پر حاصل کیا، اور پھر چمن، پشین، ژہوپ اور دیگر وہ علاقے جو گندمک معاہدے کے تحت افغانستان سے حاصل کئے گئے تھے، ان سب کو ملا کر برٹش بلوچستان کے نام سے ایک ایجنسی تخلیق کی گئی، جس کی بنیادی حیثیت ایک سرحد ی تزویری خطے (Border Strategic Territory) کی تھی۔ کوئٹہ کے چلتن پہاڑ کے عقب میں جنوب کی سمت خان آف قلات کی ریاست تھی، جبکہ شمال مغرب کی جانب تقریباً سات سو کلومیٹر لمبی سرحد جو افغانستان سے ملتی تھی اس کے ساتھ آباد کئی میل چوڑی پٹی بھی برٹش بلوچستان میں شامل کر لی گئی جس میں پنجپائی، کردگاب، نوشکی، چاغی، دالبندین، نوکنڈی اور تفتان کے شہر شامل تھے۔ یوں خان آف قلات جو صدیوں سے افغان خطے کے ساتھ جُڑا ہوا تھا، بلکہ اکثر بلوچ سردار بھی نسلاً پشتون ہی تھے، اسے مکمل طور پر افغانستان سے کاٹ دیا گیا۔ یہ خطہ جسے برٹش بلوچستان کہتے تھے، انگریز کے لئے عسکری طور پر بھی بہت اہمیت رکھتا تھا اور معدنیاتی ذخائر سے مالامال ہونے کی وجہ سے بھی بہت اہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز حکومت نے اپنی ساری ترقیاتی سرگرمیاں اسی خطے تک مرکوز رکھیں اور ریاست قلات ایک قدیم روایتی پسماندگی کا نقشہ بنی رہی۔ برٹش بلوچستان کو اس دور کی تیز رفتار، سواری، ریلوے ٹرین سے منسلک کرنے کے لئے ریلوے لائنوں کا جال بچھا دیا گیا۔ کوئٹہ چونکہ ایک مرکزی مقام اور فوجی ہیڈ کوارٹر تھا، اس لئے اسے ہر طرف سے ملانے کے لئے سڑکیں تعمیر کی گئیں اور طویل ریلوے لائن بچھائی گئی۔ سبی ّ سے کوئٹہ تک قدیم بولان پاس میں اٹھائیس سُرنگیں تعمیر کر کے ان کے بیچوں بیچ ٹرین کی پٹری ڈالی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ شروع میں یہ ایک تنگ پٹری (Narrow Gauge) والی ریلوے لائن تھی، لیکن پھر یہ محسوس کیا گیا کہ چونکہ پورے برصغیر میں بڑی پٹری (Wide Gauge) والی ٹرینیں چلتی ہیں تو اسے بڑے سسٹم سے منسلک کرنے کیلئے تبدیل کر دیا گیا، جس کے لئے ازسرنو نئی سُرنگیں کھودی گئیں اور جدید ریلوے لائن بچھائی گئی۔ جہاں جہاں اور جس علاقے میں بھی کوئلہ یا دیگر معدنیات موجود تھیں وہاں تک ریلوے لائن ہر صورت پہنچائی گئی۔ سبی ّ سے ایک لائن ہرنائی کی طرف بچھائی گئی جو سانگان سے ہوتی ہوئی مری قبائل کے علاقے سے گزرتی ہے اور پھر پشتون علاقوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ ہرنائی کے بعد یہ ریلوے لائن کوئلے کے ذخائر سے مالامال علاقوں ناکس، زردآلو اور خوست وغیرہ سے ہوتی ہوئی کوئٹہ پہنچتی تھی۔ اس کے راستے میں دنیا کو حیران کر دینے والا ایک ریلوے پُل ’’چھپر رفٹ‘‘ 1886ء میں تعمیر کیا گیا، جو زمین سے 260 فٹ اُونچا تھا اور دو پہاڑوں کے درمیان سُرنگیں کھود کر اسے باقی علاقوں سے ملایا گیا تھا۔ انگریز مؤرخ اس پُل کو اپنے وقت کی انجینئرنگ کا ایک معجزہ قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بولان میں موجود کوئلہ اور دیگر معدنی وسائل تک پہنچنے کے لئے تیز رفتار ٹرین کی پٹری بچھائی گئی۔ بولان درّے کے عین درمیان میں مچھ کا وہ مقام آتا ہے جس کے اردگرد کے پہاڑ، کوئلے کے ذخائر سے مالامال ہیں۔ جنگی ضروریات کی تکمیل کے لئے افغانستان کے بارڈر تک دو ریلوے لائنیں تعمیر کی گئیں۔ ایک کوئٹہ سے چمن تک اور دوسری کوئٹہ سے ژہوپ تک۔ ژہوپ کو اس زمانے میں ’’فورٹ سنڈیمن‘‘ کہتے تھے۔ کوئٹہ اور چمن کے درمیان ایک بلند و بالا پہاڑ خوجک آتا ہے۔ اس پہاڑ پر انگریز نے پختہ مورچے تعمیر کئے اور ساڑھے چھ ہزار میٹر بلند اور چار کلومیٹر لمبی سُرنگ کھود کر ریلوے لائن کو سرحدی شہر چمن تک پہنچا دیا۔ کوئٹہ سے ژہوپ تک بچھائی جانے والی ریلوے لائن بھی حیران کن تھی، جس پر دنیا کا بلند ترین ریلوے سٹیشن کان مہتر زئی آتا تھا۔ یہ کام 1891ء تک مکمل ہو گیا۔ انگریز نے یہ تمام کام بغیر کسی طاقت کا استعمال کئے، سرداروں کے تعاون سے مکمل کیا۔ انگریز حکمرانوں نے سرکاری لیویز کے دستے بنائے اور انہیں سردار کے مکمل اختیار میں دے دیا۔ ایک بلوچ سردار جو پہلے اپنے اندرونی قبائلی نظام کی وجہ سے فیصلے کرتا تھا اور امن و عامہ قائم کرتا تھا اب وہ ایک خارجی حکمران بن گیا، جس کے پاس لیویز نام کی ایک پولیس فورس تھی، جو اسے طاقتور بناتی تھی۔ سردار پہلے قبیلے کے بزرگ اور معتبر ہوا کرتے تھے، مگر اب انہیں حاکم بنا دیا گیا۔ برٹش بلوچستان کے اکثر علاقوں میں ریلوے لائن بچھانے، کوئٹہ میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کا ہیڈ کوارٹر قائم کرنے، وہاں شاندار کنٹونمنٹ تعمیر کرنے اور ہندوستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنانے کے بعد سنڈیمن دُنیا سے کوچ کر گیا۔ اب انگریز بلوچستان میں ہر لحاظ سے مستحکم ہو گیا تھا۔ پشتون اور بلوچ سردار سب کے سب اس کی مٹھی میں تھے اور ان سرداروں کے ذریعے عوام انگریز کے قابو میں۔ انگریز کو ہندوستان کے باقی علاقوں کی نسبت بلوچستان کو کنٹرول کرنے کے لئے بہت ہی کم سرمایہ خرچ کرنا پڑا۔ چند ہزار لیویز کی تنخواہیں اور بدلے میں اتنے وسیع و عریض خطے پر حکمرانی۔ یہ سب سنڈیمن کی فارورڈ پالیسی کے ذریعے بلوچ اور پشتون سرداروں کو انگریز کی حکمرانی میں شریک کرنے سے ہی ممکن ہو سکا۔ سنڈیمن مر گیا تو اس کے جانشین جیمز برائون (James Browne) کو ایک مستحکم انگریز حکومت ملی۔ اسے سنڈیمن کی فارورڈ پالیسی اور سرداروں کو خوش رکھنے کی ’’حیثیت‘‘ کچھ زیادہ اچھی نہ لگی۔ وہ چاہتا تھا کہ خان آف قلات کی یہ ’’نمائشی حیثیت‘‘ بھی ختم کر دی جائے اور تمام سردار براہِ راست انگریز ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کے ماتحت ہو جائیں۔ (جاری ہے)