جس ملک کے سمگلرڈالر سمگل کرکے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہوں،جس ملک میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہو،جس ملک میں محکمہ برقیات کے آفسران کو بجلی مفت دی جا رہی ہو،جس ملک کے بڑے سرکاری ملازمین کو گاڑی اورپٹرول مفت دستیاب ہو،جس ملک میں ایرانی تیل سمگل ہوکرفروخت ہو رہا ہو اوران تمام تباہیوں اوربربادیوں کے پیچھے وزراء اور حکومتی عہدے دار ہوں ۔ جیسے کہ ماضی قریب میں فرح گوگی ،ایان علی اورمقصودچپڑاسی جیسے کردارحکمرانوں کی کرپشن کرنے اور پھر اسے چھپانے کے لئے موجود ہوں،جس ملک کی اشرافیہ نے اپنی شفٹ لگانے اوراپنی مدت پوری کرنے کے بعد لندن اوریورپ میں بقیہ زندگی گزارنے کے لئے پہلے سے ہی منصوبہ بندی کررکھی ہو ۔ جس ملک میں ہر الیکشن ہونے کے بعد دھاندلیاں ہونے کا شور مچایا جاتا ہو۔جس ملک میں مافیا زکی حکمرانی ہو جو اشیا ء خوردنوش کی قیمتوں کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرتے ہوں۔ جس ملک میں جھتے اٹھ کرملک میں لاء اینڈ آڈرکے مسائل پیدا کر رہے ہوں۔ جس کی اکانومی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے مطابق اور کہنے پر چل رہی ہو۔ اس ملک کو بنانا ری پبلک ہی کہا سکتا ہے۔ پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کی تمام جہات دیکھ کر لگ یہ رہا ہے کہ یہ قائد کا وہ پاکستان نہیں جسے عظیم قربانیاں دے کرحاصل کیاگیا تھا بلکہ یہ جمہوریہ بنانا ری پبلک ہے ۔ 1904ء کو امریکہ میں ایک ناول نے تہلکہ مچادیا تھا۔ وجہ یہ بنی کہ اس ناول سے بنانا ری پبلک کی دنیا میں شہرت ہوگئی اوروہ دن ہے اور آج کا دن ہے دنیائے سیاست میں یہ محاورہ عام ہوگیا کہ جس ملک میں آئین اورقانون کی حکمرانی نہ ہو اسے بناناری پبلک کہا جاتا ہے ۔ جس میں آئین اورقانوں کو روندا جاتا ہو ۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آخر یہ بنانا ری پبلک کیا ہے اور کیا یہ اتنی بری ریاست ہے کہ کوئی بھی اپنے ملک کو اس سے تشیبیہ دینا پسند نہیں کرتا؟کیا اس کا کوئی حقیقی وجود ہے اور اگر ہے تو اس کے پیچھے پس منظر کیا ہے اس کے پیچھے کونسی دلچسپ کہا نی ہے ۔ لاطینی امریکہ کا چھوٹا سے ملک ہے ہنگورس جس کو1502ء میں کولمبس نے دریافت کیا اور جیسے ہی کولمبس نے اس کو دریافت کیا تو یورپ سے بھیڑ بکریوں کی طرح لوگ یہاں آگئے اور یہاں آکر ایسے آباد ہوئے کہ آتے ہی اپنے قدم جمانا شروع کردیئے یہاں تک کہ یہاں پر پہلے سے موجود مقامی لوگوں کو اپنا غلام تک بنا لیا، یہاں لاکھوں ایکڑوں پر کیلوں کے باغات تھے اوردنیا میں سب سے زیادہ کیلے ہنگورس میں ہی پیدا ہوتے ہیں یعنی اس علاقے کا حقیقی ذریعہ معاش صرف اور صرف کیلوں کی تجارت تھی۔1838ء میں مقامی لوگوں نے بغاوت کر کہ ہسپانیوں کو یہاں سے نکال دیا اور مقامی حکومت بنا دی،اس کے علاوہ ہنگورس میں دو کاروباری کمپنیوں کا بہت نام تھا ان کمپنیوں کا اثر رسوخ اور پیسے کے لحاظ سے خوب نام تھا۔ ہنگورس میں موجود ان کمپنیوں میں ایک کا نام یونائیٹڈ فوڈ کمپنی اور دوسری کا نام اسٹینڈرڈ فوڈ ز کمپنی تھا یہ دونوں کمپنیاں امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں تجارت کرتی تھیں،وقت گزرتا رہا پھر1901ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ ان دونوں بڑی کمپنیوں کے درمیان تجارتی لین دین کے معاملے پر ناختم ہونے والا جھگڑ ا پیدا ہوگیا، اور یہ جھگڑا دونوں کمپنیوں کے درمیان ایک جنگ کی شکل اختیار کر گیا، جب لڑائی بڑھ گئی تو یونائیٹیڈ فوڈز کمپنی کا مالک اس دور کے ایک طاقتور جنرل سے ملنے گیا جس کا نام جنرل الباسو تھا، یونائیٹڈ فوڈز کمپنی کے مالک نے جنرل الباسو سے اپنی کمپنی کے لیے مدد مانگی اور کہا کہ انہیں اپنی مخالف کمپنی کے خلاف آپ کی ضرورت ہے، جس پر جنرل الباسو نے اس کو کہا کہ تم کاروباری لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہو تم لوگ یہ جھگڑے ختم کرو تم لوگ تجارت کرو اور اس جنگ کو فوری طور پر ختم کرو۔ یونائیٹیڈ فوڈز کمپنی کے مالک نے کہا کہ جب زندگی کے نشیب وفراز میں انا بیچ میں آجائے تو تاجر سے سپاہی بننے میں دیر نہیں لگتی اس پر جنرل باسو نے اسے جواب دیا کہ جنگ کے لئے ہتھیار اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر تمہارے پاس ایسا کیا ہے جو اپنے لوگوں کو جنگ اور بارود کی آگ میں جھونک رہے ہو، اس پر یونائیٹیڈ فوڈز کمپنی کے مالک کو غصہ آگیا مگر اس نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ ہمارے پاس ہتھیار ہی ہوتے تو میں آپ سے مدد مانگنے کیوں آتا مگر ہمارے پاس کیلے ہیں اور ہم آپ کو بتائیں گے کیلے کسی توپ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اس کے بعد یونائیٹڈ فوڈز کمپنی نے سیاست میں قدم جمانے شروع کردیئے اس کی کوئی سیاسی پارٹی تو نہیں تھی مگر وہ کنگ بننے کی بجائے کنگ میکر بن گیا اس نے سب سے پہلے اپنی دولت کے بل بوتے پر ہنگورس کے چیف پولیس آفیسر کو خریدا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہارس ٹریڈنگ کا ایسا بازار لگا کہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کی دھن میں اس زمانے کے وزیروں کی بولی لگا ئی گئی یہاں تک کہ وزیراعظم تک کو خرید لیا۔ اس طرح چاروں طرف اپنے دھاک بیل بٹھاکر انصاف کے ایوانوں کو بھی اپنے طابع کرلیا،وہ اپنی طاقت کو بے لگام گھوڑا بناچکا تھا اس نے گینکسٹروں کی ایک فوج بنائی جس کو ہنگورس فورس کا نام دیدیا، اداروں پر قبضے کرکے اپنے ہی لوگوں کو بٹھا دیا جس سے ہر جگہ اس کا طوطی بولنے لگاجس کے بعد اس نے اپنی مخالف کمپنی سے بدلہ لینا شروع کردیا جس سے اسٹینڈرز فوڈز کمپنی کو بہت نقصان ہونا شروع ہوگیا چونکہ پیسے اور اثرورسوخ کے لحاظ سے اسٹینڈرڈ کمپنی کا مالک بھی کسی لحاظ سے کم نہیں تھا جس پر اسٹینڈرز فوڈز کمپنی نے اپنے یورپ، کینیڈا اور امریکہ کے کاروباری دوستوں سے مدد مانگنا شروع کردی، وہ لوگ ان کی فوجی، مالی اور سفارتی مدد کرنے لگے جس سے ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا اس دوران امریکہ کا ایک مشہور افسانہ نگار او ہینگری کا ہنگورس آنا ہوا اس نے جب یہ ساری صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھی تو اس نے بنانا ریپبلک کے نام سے ایک ناول لکھا تھا ۔