سپریم کورٹ نے بدھ کے روز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں پھانسی دئیے جانے کے عدالتی فیصلے پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے قرار دیا کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران "منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل" کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے تیرہ سال سے زیر التوا صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے کا اعلان کیا ۔صدارتی ریفرنس میں پیپلز پارٹی اور قانونی ماہرین نے پھانسی کے فیصلے کو ایک تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے اس کو درست کرنے کا کہا تھا۔ چیف جسٹس فائزعیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اپریل 2011 میں دائر کیے گئے ریفرنس میں سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیار کے تحت پیپلز پارٹی کے بانی کو سنائی گئی سزائے موت پر نظرثانی کے لیے رائے مانگی گئی تھی۔تعجب اس امر پر ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ تیرہ سال زیر التوا رہا ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کس رفتار سے چلتے ہیں۔بہرحال چیف جسٹس نے اس مقدمہ کو نمٹا کر اعلیٰ عدلیہ کے دامن پرمصلحت کیش ججوں کے ہاتھوں لگنے والے داغ کو دھونے کی کوشش کی ہے۔ چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کی رائے آنے پر کہا کہ 44 برسوں بعد تاریخ درست کی جارہی ہے۔انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس رائے کے بعد پاکستان کا جمہوری اور عدالتی نظام ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد امید رکھتا ہوں کہ اب نظام صحیح سمت میں چلنا شروع ہو جائے گا۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ تاریخی غلطی کا ازالہ ممکن نہیں لیکن سنگین غلطی کے اعتراف سے ایک نئی تاریخ اور ایک نئی روایت قائم ہوئی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ کی جانب سے صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے پانچ سوالات کے جواب دیے گئے ہیں جو عدالت میں چیف جسٹس کی جانب سے پڑھ کر سنائے گئے ۔ پہلا سوال: کیا بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس حوالے سے رائے سناتے ہوئے کہا ہے کہ ’لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی کارروائی اور سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران آئین کے آرٹیکل چار اور نو کے تحت فیئر ٹرائل اور ڈیو پراسس کا بنیادی حق فراہم نہیں کیا گیا۔دوسرا سوال یہ تھا کہ کیاسپریم کورٹ کی جانب سے بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ عدالت کی اس سوال کے حوالے سے رائے ہے کہ ریفرنس میں درج سوال میں وہ مخصوص پرنسپل آف لا درج نہیں ہے جس کے بارے میں ہماری رائے مانگی جا رہی ہے۔ اس لیے ہم اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ آیا ذوالفقار علی بھٹو کیس میں کوئی ایسے قانونی قواعد تھے جو بعد میں لاگو ہوئے ہوں یا انھیں ختم کر دیا جائے۔عدالت کی جانب سے تیسرے اور پانچویں سوال کا جواب ایک ساتھ دیا گیا ہے۔تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟جبکہ پانچواں سوال یہ تھا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فراہم کئے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟ عدالت نے قرار دیاکہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت یہ عدالت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شواہد کو نہ تو دوبارہ لکھ سکتی ہے اور نہ اس کیس کے فیصلے کو ختم کر سکتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے تفصیلی فیصلے میں ہم یہ بتائیں گے کہ وہ کون سے بڑے آئینی اور قانونی سقم تھے جو منصفانہ ٹرائل اور انصاف کے تقاضوں سے متعلق اس کیس میں دیکھنے کو ملے۔ اس مقدمے میں ہمارے نزدیک منصفانہ ٹرائل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ صدارتی ریفرنس میںچوتھا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟اس حوالے سے عدالت کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے اس سوال کے حوالے سے معاونت مانگی گئی تھی تاہم عدالت کو ایسی کوئی معاونت فراہم نہیں کی گئی اس لیے ہم اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ بھٹو کیس ہمارے قومی اداروں خاص طور پر عدلیہ کے لئے ایک سبق ہو سکتا ہے۔ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دینا معمولی عمل نہیں ۔مولوی تمیز الدین کیس سے لے جسٹس قیوم اور ماضی قریب کے بہت سے مقدمات میں کسی دباو ،ترغیب یا تعصب کی بنیاد پر انصاف سے روگردانی کرنے والے جج ریٹائرمنٹ کے بعد نجی یا مجلسی سطح پر اپنے غلط فیصلوں پر اظہار افسوس کرتے رہے ہیں ۔سبق یہ ہے کہ جب کوئی اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہوتا ہے تو اسے انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔قانونی اور آئنی امور کی من چاہی وضاحت کرنے سے ملک بحرانوں کا شکار ہوتا رہا ہے۔بھٹو کیس پر سپریم کورٹ نے غلطی سدھارنے کا راستہ دکھایا ہے ،امید کی جانی چاہئے کہ قومی زندگی اور معاملات پر یہ فیصلہ مثبت اثرات مرتب کرے گا۔