گزشتہ جمعرات اور جمعہ کے روز چین کے شہر بیجنگ میں چین، امریکہ، روس اور پاکستان کے افغانستان میں پائیدار امن کے حوالے سے مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات کو جہاں افغان امن عمل میں نہایت اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے وہاں یہ مذاکرات علاقائی سطح پر افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری پراکسی جنگ میں بھارت کی بہت بڑی ناکامی بھی مانی جا رہی ہے۔ مذاکرات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں شرکاء نے افغان امن عمل کو تیز کرنے اور افغانستان پائیدار امن اور استحکام کے لیے حتمی معاہدے پر متفق ہونے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کا سب سے پہلا اور اہم ترین نقطہ بڑی طاقتوں چین، روس اور امریکہ کا پاکستان کی افغان امن عمل میں اہمیت تسلیم کرنا اور یہ اعتراف کرنا ہے کہ پاکستان افغان امن کیلئے بنیادی اور کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ چاروں ممالک نے ماسکو اوردوحا میں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات کی تائید کی ہے اور تمام فریقین کو فوری طور پر ایسی قابل عمل باہمی بات چیت شروع کرنے پر زور دیا ہے جس میں افغان حکومت افغان طالبان اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز آن بورڈ ہوں۔مشترکہ اعلامیہ میں باہمی اتفاق رائے سے افغانستان میں پائیدار امن کا فریم ورک تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے۔ امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے افغان قیادت کو ایسا امن فریم ورک تشکیل دینے پر ابھارا ہے جو مستقبل میں افغانستان میں امن اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے اور ایسے سیاسی انتظام کی تشکیل پر مشتمل ہو جو افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہو۔ ان مذاکرات کا چوتھا اہم نقطہ یہ تھا کہ مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان کے تمام متحارب گروپوں سے کہا گیا ہے وہ امن مذاکرات کے لیے جنگ بندی پر آمادہ ہوں تا کہ باہمی بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو سکے۔ ان چار ملکی مذاکرات کا حاصل یہ ہے کہ چاروں ممالک افغان امن کے داعی ہیں اور امن عمل پیش رفت کی مانیٹرنگ کرنے کے ساتھ افغانستان میںمتحارب گروہوں کو باہمی بات چیت پر آمادہ کرنے پر متفق ہیں ۔ افغانستان میں جلد امن کے قیام کے متمنی بھی۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادنے بیجنگ سے ٹویٹ کیا ہے کہ چاروں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان سمیت تمام گروپ باہمی مذاکرات فوری طور پر شروع کریں اور ان مذاکرات میں امن عمل کا فریم ورک تشکیل دیا جائے جس پر تمام فریقین کا اتفاق ہو۔ خلیل زادنے مزید کہا ہے کہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ اب تشدد کم ہونا چاہیے۔ فریقین جلد مذاکرات کے بعد مستقل جنگ بندی کے لیے باہم بات چیت کریں، ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تمام بین الاقوامی برادری افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ یہ اعلامیہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین، روس اور امریکہ ایک اور سرد جنگ کی طرف بڑھتے محسوس ہوتے ہیں۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ تینوں بڑی طاقتیں اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر افغان تنازع کا پرامن حل چاہتی ہیں۔ حالیہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ رواں برس جون میں پنٹاگون نے اپنی انڈوپیسفیک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں چین کو ترمیم پسند ابھرتی قوت اور روس کو عالمی منظر نامے پر پھر سے ابھرنے والی قوت قرار دیا گیا ہے مگر حالیہ مشترکہ اعلامیہ سے لگتا ہے کہ جیسے افغان امن عمل کے حوالے سے تینوں بڑی طاقتیں باہم شیر وشکر ہوں۔ درحقیقت یہی وہ کھیل ہے جو گریٹ گیم کی صورت میں وسطی ایشیا میں ہمیشہ کھیلا گیا ہے کہ جب عالمی طاقتیں کسی میدان میں لڑتے لڑتے لہولہان ہو جاتی ہیں تو پھر تھک ہار کر زخم چاٹنا شروع کر دیتی ہیں اور کسی دوسرے میدان میں سینگ پھنسانے کی طرف بڑھتی ہیں۔ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ افغانستان میں بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ فی الوقت تو یہی لگتا ہے کہ کھیل معطل ہو گیا ہے ۔ جب چین کوہ ہندوکش اور افغانستان میں ون بیلٹ ون روڈ انیشیٹو کی صورت میں ٹانگیں پسارے گا تو یہ بے رحم گریٹ گیم پھر شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ جونہی امریکہ خطہ سے نکلے گا یہ خلا ہندوکش میں چین پر کر لے گا اور پھر امریکہ کو افغانستان اور خطہ میں اپنی بالادستی ختم ہوتی دکھائی دے گی۔ شاید امریکہ مستقبل میں کبھی خطہ میں پائوں نہ جما پائے۔ چار ملکی مذاکراتی فورمیٹ میں افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام میں پاکستان کے کلیدی کردار کو تسلیم کیا گیا ہے اور یہ چین کے بہترین مفاد میں ہے اس صورت حال میں چاہتے یا نا چاہتے ہوئے پاکستان روس اور امریکہ کا اہم شراکت کار بن چکا ہے۔ ان حالات میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ پاکستان پر انحصار کریں یا ٹرمپ کے الفاظ میں ’’اس بات کا انحصار پاکستان پر ہے کہ افغانستان دہشت گردی کی لیبارٹری نہ بنے‘‘ پاکستان کے چین سے تعلقات نئی بلندیوں پر ہوں گے جب ون بیلٹ ون روڈ اپنے پر افغانستان میں پھیلائے گا۔ سی پیک میں روس کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے اور امریکہ سے پاکستان کی سٹریٹجک شراکت داری تو پہلے ہی دم توڑ رہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس صورتحال میں بھارت کو بری طرح مات ہوئی ہے۔ افغانستان میں پاکستان کی بھارت کو بدترین شکست ،خطہ کی سٹریٹجک سیاست کو بدل کے رکھ دے گی۔ بھارتی تجزیہ کار صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے رہے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ امریکہ نے بھارت کو سبز باغ دکھا کر گڑھے میں دھکا دے دیا، درحقیقت ٹرمپ نے مودی کو امریکہ کا خطہ میں نمبر ون اتحادی قرار دیا تھا مگر کیا اس ساری صورتحال کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے؟۔(بشکریہ انڈین پنچ لائن:ترجمہ ذوالفقار چودھری)