مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے ظالمانہ اقدامات پر جہاں بین الاقوامی سطح پر بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا ہے وہاں اس کا منفی اثر بھارتی معیشت پر بھی پڑا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سیاحت اور مقامی صنعتیں جن میں کشمیری شال، اونی کپڑا، پھول اور زعفران شامل ہیں، بند ہونے سے زرمبادلہ کی صورت میں بھارتی آمدنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور پنجاب میں افراتفری اور افرادی قوت کے کام کرنے سے انکار کے سبب مقامی صنعتوں کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی فیکٹریاں بھی بند ہیں۔ اس خطرناک صورتحال پر تو بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی کہہ اٹھے ہیں کہ ہندوستان کی معاشی حالت’گہری تشویشناک‘ ہے اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ جی ڈی پی کے تازہ ترین اعداد و شمار واضح طور پر’ناقابل قبول‘ ہیں۔بھارت کے سابق وزیر اعظم کے یہ ریمارکس قومی شماریاتی دفتر (این ایس او)کے پیش کردہ اعدادوشمار کے بعد سامنے آئے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی (جولائی تا ستمبر)میں ہندوستان کی جی ڈی پی نمو 4.5 فیصد کی سطح پر آگئی تھی۔ اقتصادی پالیسیوں میں معمولی تبدیلیوں سے معیشت کو بحال کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ معیشت کی حالت تشویشناک ہے لیکن ہمارے معاشرے کی حالت اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ معاشرے میں خوف کاایک واضح ماحول موجود ہے۔ بہت سے بھارتی صنعتکاروں کاکہنا ہے کہ وہ سرکاری حکام کے ذریعہ ہراساں کیے جانے کے خوف میں رہتے ہیں۔ بدلہ لینے کے خوف سے بینکر نئے قرضے دینے سے گریزاں ہیں۔اسی لئے کاروباری حضرات ناکامی کے خوف سے تازہ منصوبے شروع کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ لدھیانہ میں سائیکلوں اور آگرہ میں جوتے جیسی صنعتوں سے وابستہ غیر منظم شعبے بڑی تعداد میں بند ہو چکے ہیں۔بھارت کے غیر منظم شعبے میں 94 فیصد لوگ کام کرتے ہیں جہاں 45 فیصد پیداوار ہوتی ہے۔ اگر جہاں پر 94 فیصد لوگ کام کریں اور وہاں پیداوار اور روزگار کم ہو رہے ہوں تو مانگ کم ہو جاتی ہے۔مانگ میں کمی تو ’ڈی موناٹائیزیشن‘ کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ پھر آٹھ ماہ بعد جی ایس ٹی کے اثرات پڑنے لگے اور پھر بینکوں کے این پی اے (نان پرفارمنگ ایسٹس) کے اثرات نظر آنے لگے۔ اور ان سب کے بعد غیر بینکاری مالیاتی کمپنیوں کے بحران کے اثرات پڑے۔یعنی تین برسوں میں معیشت کو تین بڑے جھٹکے لگے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ سی ایم آئی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ملازمین کی تعداد 45 کروڑ تھی جو کم ہو کر 41 کروڑ رہ گئی ہے۔ کاروں اور ایس یو وی کی فروخت گذشتہ سات سال میں سب سے کم سطح پر ہے۔ ٹریکٹر، موٹر سائیکل اور سکوٹر کی فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔ بینک سے قرض کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان یونی لیور کمپنی نے گزشتہ سہ ماہی میں کم آمدن دکھائی ہے۔ یہ تمام چیزیں صارفین کی قوت خرید کا اشارہ ہیں۔مودی کی پارٹی نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ وہ انکم ٹیکس میں کمی لائے گی تاکہ متوسط گھرانے کے ہاتھوں میں زیادہ پیسہ ہو اور ان کی قوت خرید زیادہ رہے۔بہرحال حکومت کی موجودہ مالی صورت حال کے پیش نظر یہ فوری طور پر ممکن نہیں۔ چار کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چھن گئی ہیں۔ جب اتنے بڑے حصے کی آمدنی کم ہو جائے گی تو ظاہر ہے کہ مانگ کم ہو جائے گی اور جب صارفین کی گنجائش کم ہو جائے تو سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے۔ 8نومبر2016ء کو مودی سرکار نے نوٹ بندی پروگرام شروع کیا جس میں 14کھرب مالیت کے پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ، جو زیر گردش کرنسی کا 86فیصد بنتے تھے، بیک جنبش قلم منسوخ کرکے ناقابل استعمال کردیے گئے۔ ظاہراً کرپشن کے خاتمے کیلئے کئے گئے یہ اقدامات بالکل ہی ناکام ہوگئے بلکہ اس سے معیشت بھی نیچے آگئی اور بھارتی معیشت کو ایسا دھچکا لگا کہ آج تک سنبھل نہیں سکی۔ سرینگر میں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکے صدر شیخ عاشق حسین کے مطابق بھارت کی طرف سے گزشتہ برس پانچ اگست سے مسلط کر دہ فوجی محاصرے اور انٹرنیٹ کی بندش کے سبب مقبوضہ علاقے کی معیشت کو اب تک 15ہزار کروڑروپے کا نقصان پہنچا ہے۔ محاصرے اور انٹرنیٹ پر پابندی کے بعد تجارت کا ہرشعبہ متاثر ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین معیشت کے مطابق مرکزکی جانب سے کئے گئے فیصلے کے بعد جو صورتحال بنی ہے اس سے دستکاری ، سیاحت اور ای کامرس کے شعبے کافی متاثر ہوئے ہیں۔ وادی میں پری پیڈ موبائل فون پر انٹرنیٹ سروسز 5 اگست سے معطل ہیں۔ ایس ایم ایس سروس ابھی بھی بند ہے۔جس کی وجہ سے معیشت دن بدن بد تر ہو رہی ہے۔ جاری کردہ اعدادوشمار اور تخمینے کے مطابق مجموعی طور پر ختم ہونے والی ملازمتوں کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ ہوٹلنگ کی صنعت میں 30000سے زیادہ افراد اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہیں۔ مواصلات کی سہولیات کی عدم موجودگی میں کاریگروں کے لیے کوئی متبادل اقدامات نہیں کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ انتہائی ہنر مند کاریگر اپنی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متبادل معاشی راستے کی تلاش پر مجبور ہوئے ہیں۔ ای کامرس سیکٹر جس میں آن لائن خریداری کے لیے کورئیر کی خدمات شامل ہیں، اس شعبہ میں 10000لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔اب بھی حالات یہ ہیں کہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کشمیرآنے سے کتراتی ہے۔ماہ نومبر میں برف باری ہوئی اور سیاح کی کثیر تعداد برف باری ہوتے ہی کشمیر کا رخ کرتے تھے، تاہم رواں سیزن ابھی تک ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔