روس کے عظیم مصنف اور ناول نویس میکسم گورکی نے اپنے ایک افسانے میں لکھا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تب مجھے معلوم نہ تھا کہ بڑے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟میکسم گورکی نے لکھا ہے میں اس وقت سوچا کرتا تھا کہ بڑے لوگ قد اور وزن میں بڑے ہوتے ہونگے۔ ان کا پیٹ بھی بہت بڑا ہوگا۔وہ کھانا بھی بہت زیادہ کھاتے ہونگے۔جب وہ کھا کھا کر تھک جاتے ہونگے تب ان کے لیے ان کے ملازمین کھانا چبا چبا کر ان کے منہ میں ڈالتے ہونگے۔۔۔۔۔!! میکسم گورکی نے لکھا ہے ان کو بڑی حسرت تھی کہ وہ بڑے لوگوں کو دیکھے مگر وہ بچپن میں ڈرتا تھا کہ بڑے لوگ بھیانک نظر آتے ہونگے اور کہیں وہ انہیں دیکھ کر ڈر نہ جائے۔ میکسم گورکی جب بڑا ہوا تب اس کو معلوم ہوا کہ بڑے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟ مگر ہم اب بڑھاپے میں قدم رکھ رہے ہیں اور ہمیں اب تک معلوم نہیں ہوا کہ مہنگائی کہاں سے آتی ہے۔ عام لوگ بھی میکسم گورکی کے بچپن جیسے ہوتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ حکمران زیادہ دولت کمانے کے لیے چیزوں کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہوئی جیسے یونانی دیومالا میں دیوتا آگ کو کم کردیتے تھے اور لوگ سردی میں کانپنے لگتے تھے۔ کیا مہنگائی صرف حکمرانوں کے فیصلے سے صادر ہوتی ہے؟ معاشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ مارکیٹ ایک ایسا درندہ ہے جس کو کوئی حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی؟ جب ہم اشیاء خوردو نوش کے لیے دکانوں پر جاتے ہیں اور چیزوں کی بڑھی ہوئی قیمتوں پر دکانداروں سے لڑنے لگتے ہیں تب وہ بہت سادہ سا جواب دیتے ہیں کہ ہمیںچیزوں کے دام بڑھانے کا کوئی شوق نہیں۔ جب ہمیں چیزیں مہنگی ملیں گی تب ہم مہنگی نہ بیچیں تو کیا کریں؟کیا ہمارے حکمران بھی اس عام سے دوکاندار جیسے نہیں جو ہم سے کہتے ہیں وہ کیا کریں؟ جب عالمی منڈی میں کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو کیاکریں؟اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مہنگائی کو سمجھنے اور مہنگائی کا مل کر مقابلہ کرنے کے بجائے ہماری سیاسی جماعتیں مہنگائی کو ایک ایشو بنا کر اس پر سیاست کرتی ہیں۔ آج کل وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے جو کچھ وہ کل اپنے مخالف حکمرانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ حالانکہ جو سیاسی پارٹیاں مہنگائی کو ہاٹ ایشو بنا کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے ان کی قیادت کو مہنگائی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ۔ کیا مریم نواز اور بلاول زرداری کو معلوم ہوگا کہ عام استعمال کی اشیاء کتنی مہنگی ہیں؟وہ تو کیا ان کے خاص ملازمین کو بھی معلوم نہ ہوگا کہ مارکیٹ میں کس طرح آگ لگی ہوئی ہے اور غریب عوام اس آگ کی لپیٹ میں کس طرح جل رہے ہیں؟اگر میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خاندان سے ساری دولت چھینی جائے اور وہ خود گاڑی میں پیٹرول بھروائیں تب ان کو احساس ہوگا کہ عام لوگ کس ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور حکومت کو سیاسی طور پر بلیک میل کرتے ہیں وہ خود نہیں جانتے کہ مہنگائی کس پرندے کا نام ہے؟ ہم انھیں بتانا چاہتے ہیں کہ جناب! مہنگائی کسی پرندے کا نہیں بلکہ ایک ایسے درندے کا نام ہے جو عوام کی ہڈیاں بھی چبا جاتا ہے مگر پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ مہنگائی وہ بھوت ہے جو بنی گالا کے پہاڑیوں میں نہیں بستا۔ وہ غریب عوامی بستیوں پر منڈلاتا رہتا ہے۔ مہنگائی میں انسان کس قدر مجبور ہوجاتا ہے؟ یہ تو غریب عوام کو معلوم ہے۔ جو محلوں جیسے گھروں کے مکین ہیں،ان کو کیا معلوم کہ مہنگائی کیا ہے؟ مہنگائی ایک آفت ہے۔ مہنگائی کورونا سے خطرناک وبا ہے۔ اس لیے جب کورونا سے بچنے کے لیے حکومت نے نقل و حرکت اور لوگوں کی میل جول پر پابندی عائد کی تو کچھ دنوں میں لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ان کو کورونا کی وجہ سے مرنا قبول ہے مگر وہ مہنگائی کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتے۔غریب لوگ بھوک کو برداشت نہیں کرسکتے۔مہنگائی کی وجہ سے لوگ کس تکلیف سے گزر رہے ہیں؟ان کے احساسات اور جذبات کو وہ لوگ کیا جانیں جو کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کے نوٹوں سے ووٹوں کو خریدتے ہیں اور ان کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ ملک میں آٹے اور چینی کی قیمت کتنی ہے۔ آپ ان وزراء کی بات مت کریں۔ آپ ان افسران کی مثال مت دیں۔ وہ تو صحت کے لیے کم کھانا کھاتے ہیں اور چائے میں چینی ڈالنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ آپ ان عام لوگوں کی بات کریں جوعلاج نہیں کرواسکتے۔ جو ڈاکٹر کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ ان کے پاس فیس نہیں ہوتی اور جب وہ مانگ تانگ کر کہیں سے فیس کے پیسے اکٹھے بھے کر لیتے ہیں تو وہ ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ٹیسٹس کیسے کروائیں؟ ان کے پاس دوائی کے پیسے نہیں ہیں۔ غریب عوام کے بچے بخار میں تڑپتے ہیں مگر ان کے پاس پیناڈول خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ کچھ بھی کہے مگر ہر شخص کے پاس صحت کارڈ نہیں۔ عام لوگوں کے پاس کوئی اے ٹے ایم اور کریڈٹ کارڈ نہیں۔ان کے پاس تو مشکل سے صرف شناختی کارڈ ہوتا ہے۔وہ اس کارڈ کو دکھا کر صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیں ہم پاکستانی ہیں اور بہت غریب ہیں۔ اقتداری سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں تو صرف کرسی کرسی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہوا کرتی ہیں۔ وہ تو عوام کی خاطر آپس میں بات چیت تک نہیں کرتے۔ ان کو جب بھی کسی قومی ایشو پر ساتھ بٹھانے کا اہتمام کرنا ہوتا ہے تو وہ حکومت کی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی دعوت کا انتظار کرتی ہیں۔ حالانکہ اس وقت وطن عزیز اور وطن عزیز کے عوام مہنگائی کی جس مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں، اس کا تقاضہ ہے کہ اپنے تمام اختلافات ایک طرف رکھ کر وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور مہنگائی کی مصیبت کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس صرف ایک ایجنڈا ہے اور وہ ہے اقتدار۔ ہم حکومت کی بات بھی کریں گے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرے مگر ہم جانتے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ملکی مہنگائی کا بوجھ اٹھانا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں،پھر وہ بھلے اقتداری جماعت کیوں نہ ہو۔ مہنگائی کا حل نکالنا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے فرائض میں شامل ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جو جماعت اقتدار نہیں ہوتی وہ فرائض کی بات نہیں کرتی۔ وہ حقوق پر اصرار کرتی ہے۔ جب کہ حقوق اور فرائض ایک ساتھ جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں کیا ہے؟ ہمارے ہاتھوں میں تو محض ایک قلم ہے اور وہ قلم بھی اس قدر مجبور ہے کہ کوئی ایک بات لکھنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ اگر ہم یہ مطالبہ کریں کہ مہنگائی کا سامنا کرنے اور اس کو کنٹرول میں لانے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک پیج پر ہونا چاہیے اور ان کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے تو یہ بات آئینی اور قانونی طور پر اعتراض کا باعث بن جائے گی۔ حالانکہ حزب اختلاف ہر روز کہتی ہے کہ سرکاری قیادت اور عسکری قیادت ایک پیج پر نہیں ہے اور حکمران ہر روز کہتے ہیں کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ۔ ایسی باتیں کرنے کی ان کو اجازت ہے مگر عوام کو نہیں۔ عوام مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کی تمام قوتوں کو یکجا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ اس بلی کو کون کہے کہ مہنگائی کسی پرندے کا نہیں بلکہ اس درندے کا نام ہے جو اس بلی کو بھی چیر پھاڑ کر نگل سکتا ہے۔