یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ آدھی رات تک قومی اسمبلی کا ایوان چلتا رہا۔ ملکی تاریخ میں ایسا منظر پہلے نہیں دیکھا گیا تھا کہ ایوان چلتا رہے اورحکومت تبدیل ہوجائے ۔ ہم تاریخ تبدیل کریں یا نہیں مگر حکومت تبدیل کرنے کا حوصلہ ضرور رکھتے ہیں۔ افسوس کی بات صرف اتنی ہے کہ تاریخی تماشے کرنے کے بعد ہم اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں غربت کس طرح ختم ہوگی؟ جب سیاسی عدم استحکام کی صورتحال ایسی ہو پھر اس ملک میں کوئی سرمایہ لگانے کیسے آئے گا؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت سے زیادہ غریب ممالک آمریت میں ترقی کرتے ہیں تواس کا سبب یہ نہیں ہے کہ آمریت میں ترقی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ آمریت ترقی کا روڈ میپ مہیا نہیں کرتی۔ آمریت میں لوگ محنت اور مشقت تو کرتے ہیں مگر دل سے کام نہیں کرتے۔ اس لیے میں نہیںسمجھتاکہ آمریت ترقی کی طرف جانے والی سڑک ہے۔ ہاں اگر آمریت کے دوراں کوئی ملک ترقی کرتا ہے تو اس کا سبب صرف اور صرف ایک نظام کا ٹھہراؤ ہے۔ایک طرح کا استحکام ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے یا بری بات ہے؟ مگر ایسا ہی ہے کہ جو سرمایہ لگاتا ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا سرمایہ ضائع نہ ہوجائے۔اس لیے ہر سرمایہ کار چاہتا ہے کہ وہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرے جہاں حکومتیں ائیرپورٹ کا منظر نہ پیش کریں۔ یعنی ہر وقت اور ہر گھڑی کسی حکومت کا لینڈ کرنے اور کسی حکومت کے ٹیک آف کرنے کا سلسلہ نہ چلتا رہے۔ اس وجہ سے ملکی ترقی کے منصوبے رل جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کی حکومت کے بعد جب جمہوری حکومتوں کا دور شروع ہواتوکسی حکومت کے لیے اپنا وقت پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کا سبب یہ بھی تھا کہ ایک عشرے کی آمریت کے سبب ملکی نظام کی مٹی جمہوریت کے پودوں کے لیے موزوں نہ تھی مگر رفتہ رفتہ ہمارا ملک اس ڈگر پر آگیا جہاں جمہوری نہیں تو کم از کم منتخب حکومتوں کو کسی نہ کسی طرح سے استحکام حاصل ہوا۔یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس بات سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو بڑا حوصلہ ملا اور جو پاکستانی سرمایہ دار سوچ رہے تھے کہ اپنا سرمایہ مستحکم نظاموں والے ممالک میں لے جائیں وہ ٹھہر گئے کہ اگراپنی سرزمین پر بھی کاروبار اور تجارت کو تحفظ مل سکتا ہے تو پھر دوسرے ممالک کا رخ کیوں کریں؟ پرویز مشرف کے بعد پاکستان پر غیرجمہوری مداخلت کے سائے بھی ختم ہونے لگے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کچھ وقت سے ملک کے جیسے سیاسی حالات رہے ہیں وہ ’’عزیز ہم وطنو‘‘ والے الفاظ سننے کے لیے انتہائی موزوں تھے مگر ہماری فوج نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں سیدھی طرح سے مداخلت نہیں کرے گی ۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی بھی ملک نہیں جہاں فوج کے ساتھ سیاسی مشاورت نہیں کی جاتی۔ فوج کو اعتماد میں لینے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ آخر فوج بھی ملک کی ہے اور ملک بھی فوج کا ہے۔ اس لیے فوج بھلے اپنا کام کرے مگر جب ملکی معاملات انتشار کی طرف بڑھنے لگتے ہیں تب فوج کو بھی پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ تحفظ کا تصور صرف بیرونی نہیں ہوتا، داخلی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی بیرونی اور کچھ حالات میں تو داخلی تحفظ زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم اس وقت جن مراحل سے گزر رہے ہیں ان کا دوش کم از کم اس بار تو وردی والی قوت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس بار سیاسی قوتوں نے کیا کچھ نہ کیا ہے ۔ ملک کی سیاسی قوتوں نے ایسا ماحول بنایا جہاں فوجی مداخلت ہونا فطری ہوجائے مگرجب فوج نے ہر صورت میں مداخلت نہیں کی تب بھی بیانات کی حد تک فوج کو ملکی سیاست میں گھسیٹنے کے لیے بہت سارے دام بچھائے گئے۔ افواج پاکستان نے اس بار جس صبر اور جس ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے وہ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کے مسائل ویسے ہیں جیسے پس ماندہ ممالک کے مسائل ہوا کرتے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہماری سیاسی قوتیں جو الزام کل اسٹیبلشمینٹ پر لگایا کرتی تھیں وہ کردار ان کا ہوگیا ہے! ہماری سیاسی قوتیں آخر یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔اگر ملک میں مسائل ہیں تو ان کا حل تلاش کیا جائے۔ کیا مسائل کا حل اس طرح تلاش کیا جاتا ہے جس طرح ہماری سیاسی قوتیں کر رہی ہیں۔ یہ الفاظ ایسی شکایت ہیں جو اپنوں سے کی جاتی ہے۔ اس لیے اس میں کوئی گہری سازش تلاش کرنے کی تکلیف نہ کی جائے۔ ہم اس ملک کے باسی ہیں۔یہ ملک ہمارا ہے۔اس ملک کا ہر دکھ درد ہمارا ہے۔ اس ملک کی ہر مسکراہٹ ہماری ہے۔ اس لیے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک کو سیاسی تماشہ نہ بنائیں۔ آخر قومی غیرت کوئی خالی لفظ نہیں ہے۔ قومی غیرت نہ صرف بامعنی لفظ ہے بلکہ اس لفظ میں ہمارے لیے ایک راستہ بھی موجود ہے۔ ایک ایسا راستہ جس پر چل کر ہم بحرانوں کے دلدلوں سے باہر نکل سکتے ہیں۔ یہ بحران ہمارے لیے صرف بدنامی کاباعث نہیں بلکہ اس بحران کی وجہ سے ہمارے ملک کو جو معاشی نقصانات پہنچے ہیں ان کا ازالہ کرنے میں بہت وقت لگ جائے گا۔ کاش! ہم اس آسان سی بات کو سمجھیں کہ کسی بھی چیز کو توڑنے میں وقت نہیں لگتا مگر کسی چیز کو جوڑنے میں بہت سارا وقت لگ جاتا ہے۔ مٹاناآسان اور بنانا مشکل ہے۔ یہ ملک کتنی محنت سے بنا تھا اور اس ملک کو بگاڑنے میں ان قوتوں کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی جنہوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھا۔ کیا ہمیں حب الوطنی یہ سبق دیتی ہے؟ کیا ہماری ذاتی انا ہماری قومی انا سے زیادہ اہم ہے؟ جب ذاتی مفادات کی بات آتی ہے تب ہمارے سیاسی رہنما ذاتی انا کو بھول جاتے ہیں۔ تب انہیں یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کل کیا کہا تھا اور کسی نے کل ان کے بارے میں کیا کہا تھا؟ مگر جب قومی مفادکی بات آتی ہے تب انہیں اپنے پرانے جھگڑے اور ماضی کی تلخیاں یاد آجاتی ہیں۔ کیا ہم اپنے ملک کے لیے ایک بار عظیم قربانی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے؟ کیا ہم ایک بار آپس میں مل کر ایک نئے آغاز کا سنگ میل نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم نئی امنگ کے ساتھ اپنے ملک کے عظیم تر مفاد میں ایک دوسرے کو معاف نہیں کرسکتے؟ ہم قربانی کی بات تو کرتے ہیں مگر قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ سب سے بڑی قربانی اپنی ذاتی انا کی ہوا کرتی ہے؟اگر پاکستان کے سیاسی لیڈر ملک میں نئی اور صحتمند سیاست کا اعلان کریں اور ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قومی مفادات کا تحفظ کریںتو یہ ملک وہ تعبیر پیش کرنے کی قوت رکھتا ہے جس کا خواب حکیم الامت نے دیکھا تھا۔ جس ملک کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے تاریخ کا طویل سفر کیا تھا وہ ملک توہمارے گروہی جھگڑوں میں کہیں کھو گیا ہے؟ کیا ہم پر یہ فرض نہیں کہ ہم فی الحال سب کچھ بھول کر اپنے کھوئے ہوئے وطن کی تلاش کریں۔ وطن میں رہ کر وطن کی تلاش کا تصور ہمیں کامیابیوں کے نئے خیالات سے نوازتا ہے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو علامہ اقبال کیوں فرماتے ؟ ’’مری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ ہم نے تاریخ کا سفر کرناترک کردیا ہے اور بحرانوں کے گول دائروں میں بیل کی طرح چکر کاٹنا ہمیں راس آگیا ہے۔ اس لیے ہم سیاسی تعمیر کے بجائے دنیا کے سامنے سیاسی تماشے پیش کر رہے ہیں۔ خود پہ ہنسنا تو بڑائی کی بات ہوا کرتی ہے۔ کہتے ہیں بدھ مذہب کے بانی گوتم بدھ ایک بار پانی کے چشمے میں اپنا عکس دیکھ کر مسکرائے تھے تو ان کی یاد میں سمائلنگ بدھا کے نام سے عظیم مجسمے تراشے گئے تھے۔ کیوں کہ ان کی مسکراہٹ اپنے آپ پر تھی مگر جب خود کے لیے نہیںبلکہ خلق کے لیے آپ تماشہ بن کر قہقہوں کا سبب بن جائیں تب علامہ اقبال کی خودی کا تصور کس قدر غمگین تصویر میں ڈھل جاتا ہے؟ کاش! ہمیں خودی کے زیاں کا صرف احساس ہو جائے!!