مٹی کا ڈھیر کتنی مشکل سے ایک گھر بن پاتا اور ایک گھر کتنی جلدی مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے؟ اس تلخ حقیقت کی جتنا گہرا احساس بلوچستان کے ضلعے ہرنائی میں بسنے والوں کو ہے اتنا ہم کو کہاں؟ ہم جو شہروں میں رہتے ہیں اور بنے بنائے مکانوں کے دروازوں کی تالوں میں چمکتی ہوئی چابی پھیر کر نئے گھر کا افتتاح کرتے ہیں،ہم کیا جانیں کہ پرانے گھر میں بہت سارے مسائل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ چند محبوب یادیں بسی ہوتی ہیں جنہیں چھوڑنا بہت مشکل لگتا ہے۔ مگر سیلابوں،طوفانوں اور زلزلوں کو کون روک سکتا ہے۔ ہم تو صرف ریکٹر اسکیل پر پیمانے کا اندازہ لگاتے ہیں اور بس۔ ہم کو کیا معلوم کہ کسی کا بے گھر ہوجانا کتنا مشکل ہوتا ہے؟ بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں تو ایک نہیں بلکہ دودرجن میتیں اٹھائی گئیں اور یہ تو صرف چھوٹے سے شہر اور بڑے سے گاؤں کی رپورٹ ہے۔ ہم ان چھوٹے پہاڑی اور میدانی دیہاتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے جہاں لوگ اپنا علاج دوا سے نہیں بلکہ دعا سے کرتے ہیں۔ اگر کسی قدرتی حادثے کا شکار ہوکر کوئی شخص موت کی آغوش میں اتر بھی جاتا ہے تو وہ سڑک پر جنازہ رکھ کر احتجاج نہیں کرتے اور نہ شہری پریس کلب کا رخ کرتے ہیں۔ وہ قبلہ رو ہوکر جنازہ نماز پڑھ کر اس میت کو دفنا دیتے ہیں۔ بلوچستان کے دل میں جو درد ہے ہمیں اس کا اندازہ تک نہیں۔ ہم تو صرف سرداروں کی باتیں سنتے ہیں۔ وہ جو قیمتی شالیں اوڑھ کر اسمبلیوں میں آتے ہیں اور ایسی تقاریر کرتے ہیں جن سے ان کی بارگینگ پوزیشن بہتر ہو۔ ان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ بلوچستان کے عام انسان کی زندگی کس قدر دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ ان کے دکھ کم کرنے کے بجائے ان کے زخموں کی اس طرح نمائش کرتے ہیں جس طرح کوئی پروفیشنل بھکاری بچوں کے زخم دکھا کر خیرات مانگتا ہے۔بلوچستان کے بہت سارے سردار صرف اقتدار کا پتہ پوچھتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عام بلوچ کس طرح جیتے ہیں؟ جن دنوں بلوچستان کے ضلعے ہرنائی میں زلزلہ متاثرین مدد کے لیے چیخ رہے تھے ان دنوں میں بھی یہ سردار حکومت کے سلسلے میں سازشوں میں مصروف تھے۔ بلوچستان کا نیا وزیر اعلی کون بنے گا؟ ان کے لیے سوال اہم ہے۔ اور وہ سردار جو پورا بلوچستان اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی یورپ کی آسائشوں میں رہتے ہیں اور ان کے ساتھ ان وفود کی ملاقاتیں ہوتی ہیں جن کے ایجنٹ بلوچستان میں بم دھماکے کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں آئے ہوئے نوجوان مفت میں ملی ہوئی بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر تو چڑھ جاتے ہیں مگر وہاں سے لوٹنا کس قدر مشکل ہوتا ہے اور قانون جب ان کے بارے میں تفتیش کرتا ہے تب ان کے غریب اور معصوم رشتہ دار کتنا درد جھیلتے ہیں؟ ان باتوں کو بغاوت بھرے شعروں میں دبانا بڑی بات نہیں اور اس بات کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بلوچستان کی درد اور رنج کا سبب صرف سردار ہیں۔بلوچستان میں روز اول سے اسٹیبلشمنٹ اور سردار مل کر عام لوگوں کو اس طرح پیس رہے ہیں ۔بلوچستان میں سرداروں اور وردی والوں کے درمیاں جو کشمکش چلتی ہے وہ عام بلوچوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے مگر ان کو کون کہے؟ ایک وقت ایسا تھا جب بلوچستان میں مڈل کلاس برائے نام بھی نہیں تھا۔ اس دور میں بلوچستان میں یا تو سردار ہوتے تھے یا ان کے سماجی اور قبیلائی غلام ہوا کرتے تھے اور کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ وہ کسی سردار کے سامنے سر اونچا کرے یا اونچی آوازمیں بات کرے۔ وہ سردار جب اسلام آباد آتے تھے یا باہر مغربی ممالک میں جاتے تھے تب وہ فل سوٹ میں ہوا کرتے تھے اور لوٹ نے بھی ان کے سروں پر مغربی طرز کے کیپ ہوا کرتے تھے مگر ان کی گردن میں جو سرداری نظام کا فولاد بھرا ہوتا تھا، وہ ان کی باڈی لینگویج سے عیاں ہوتا تھا۔ بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں پر آبادی کم اور زمین زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ پانی برائے نام نہیں۔ جس طرح علامہ اقبال نے فرمایا ہے: ’’ذرا نم ہو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی‘‘ اس طرح بلوچستان کی سرزمین بھلے باہر سے سنگریز نظر آئے مگر اس میں اس قدر زرخیزی ہے کہ جب کوئی بھٹکتا ہوا بانورا سے بادل برس جاتا ہے تو وہاں کے مکینوں کے لیے پورے سال کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ جب کہ بلوچستان کی اس سے زیادہ اہمیت ان معدنیات پر مشتمل ہے جو سونے سے بھی قیمتی ہے۔ پاکستان کے پاس اب تک وہ وسائل نہیں کہ بلوچستان کی سرزمین میں چھپے ہوئے خزانے ملکی ترقی کے لیے استعمال کیے جائیں اور ان کا فائدہ اہلیان بلوچستان کو ملے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ انہوں نے بلوچ عوام کو سفاک سرداری نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کو وہ سہولیات نہیں دیں، جن کے وہ حقدار تھے۔ کیا اس سے بڑا ظلم اور کوئی ممکن تھا کہ پاکستان کو گیس کی پہلی فراہمی اکبر بگٹی کے علائقے سوئی سے ہوئی۔ اس وجہ سے پاکستان میں جلنے والی گیس کو اب تک ’’سوئی گیس‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے مگر کیا ہوا؟ پنجاب اور کراچی میں تو سوئی گیس سے کارخانے چلتے رہے مگر سوئی کے لوگ برسوں تک اپنی دھرتی سے نکلنے والی گیس کی سہولت سے محروم رہے۔ اس وقت بھی بلوچستان کی صورتحال کچھ ایسی ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان سے حاصل ہونے والے معدنیات کے ذخائر سے وہاں کے عام لوگوں کو ئی فاعدہ نہیں۔آج تک بلوچستان بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہے۔آج بھی بلوچ بچوں کے لیے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیاں نہیں ہیں۔ سرداروں کے بیٹے تو باہر سے پڑھ کر آئیں گے مگر عام بلوچوں کے بچے کہاں جائیں گے؟ بلوچستان کی دھرتی کو خوف سے بھرنے کے لیے جس طرح وہاں غیر بلوچوں کا خون بہایا گیا کیا وہ سیاست کی کسی بھی کتاب میں جائز ٹہرتا ہے؟ بلوچستان کو بدامنی کی آگ میں جھونک دینے والے ہاتھ کس کے تھے؟ آخر ہماری کوئی بھی حکومت اور خاص طور پر ہماری ریاست اپنے بلوچ بچوں کے ساتھ انصاف کے سلسلے میں اقدامات کیوں نہیں اٹھاتی؟ آخر کیوں بلوچستان ترقی اور خوشحالی کے دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب تب افغانستان میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت تھی تب بلوچستان کی دھرتی ’’را‘‘ (RAW) کے لیے خونی کھیل کا میدان بنی ہوئی تھی۔ سب کو معلوم ہے۔ سب جانتے ہیں۔ وہ جو نہیں مانتے ان کو بھی معلوم ہے کہ بلوچستان کے ساتھ اصل مسائل کون سے ہیں؟ مگر مسائل تو ہوتے ہیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو آج بھی بلوچستان کے پاس مسائل کم اور وسائل زیادہ ہیں۔ سرداری کا گلا سڑا نظام اب تک بلوچ عوام کے گردنوں میں زنگ آلود زنجیروں کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ ہم آخر کب تک بلوچستان سے آنے والی لاشوں اور وہاں دفن ہونے والے انسانوں کی قبروں کو گنتے رہیں گے؟ آخر بلوچستان کے عام لوگ سرداروں اور اسٹیبلشینٹ کے بیچ میں کب تک پستے رہیں گے؟ بلوچستان میں ظلم کی چکی کب تک چلتی رہے گی؟ ’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے خالق ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟‘‘