گذشتہ تقریبا" چالیس سال سے وکالت سے سول جج تا سیشن جج کا سفر، اس طویل عرصہ میں نظام عدل کی خوبیوں اور خامیوں کو قریب سے دیکھا بھی اور اسکا حصہ بھی رہا۔ مگر ایک بات ہمیشہ اچنبھے کی رہی کہ بلا خوف تردید ہمارے ملک میں بالعموم اور صوبہ پنجاب میںبالخصوص لوگوں کی پہلی ترجیح عدالت نہیں ہوتی، مگر پھر لاکھوں مقدمات عدالتوں میں جو زیر سماعت ہیں یہ کہاں سے آگئے۔ اور روزانہ دائر ہونے والے ہزاروں مقدمات تو کچھ اور طرح کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔ اس پر غور کیا اور بار بار کیاتوعقدہ کھلا کہ جب بھی کوئی دیوانی نوعیت کا تنازعہ دو فریقوں کے درمیان جنم لیتا ہے۔ تو اوّلاًاسے بات چیت سے بذریعہ پنچائیت، سودے بازی اور مفاہمت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ پھر بذریعہ دھونس دھاندلی ، طاقت کے زور پر ، اسلحہ کی نوک پر اور پولیس کی مداخلت سے حل کرنے کی کوشش اور جب یہ سارے حربے نا کام رہیں تو پھر معاملہ عدالت میں لے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بلکہ عدالتی کاروائی کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ آخر ہمارے ہاں عدالت پہلی ترجیح کیوں نہیں ہے؟ اسکا جواب ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں ۔ ہمارے ذاتی مشاہدہ کے مطابق لوگ عدالتوں میں آنے سے گھبراتے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام انگریز سرکار نے مرتب کیا ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری تقریبا" سو، سوا سو سال پرانے ہو چکے ہیں۔ہم نے گاہے بگاہے ترامیم کر کے انکا حلیہ تو بگاڑا ہے مگر موجودہ حالات اور نئے زمانہ کی ضروریات کے مطابق قانون سازی نہیں کر سکے۔ چنانچہ مقدمات کی سماعت کا طریقہ کار، شہادت کا معیار عدالتی افسران کی اہلیت، وکلا کی قابلیت ، عدالتی طریقہ کار اور بے شمار دیگر وجوہات کا ہم نے کبھی سائنٹیفک انداز میں جائزہ ہی نہیں لیا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے۔ کہ 1947ء سے آج تک عدل وانصاف ہماری کسی حکومت کی ترجیح ہی نہیں رہا۔ یہاں ڈنگ ٹپاؤ پالیساں نافذ ہوتی رہیں۔ مقدمات کا حقیقی اور جامع فیصلہ کرنے کی بجائے فگر ورک پر زور دیا جاتا رہا۔ نہ ہم نے نئی معنی خیز اور ضرورت کے مطابق قانون سازی کی، نہ ڈھنگ کی ترامیم، نہ عدالتی طریقہ کار کو بدلنے کی کوشش کی۔ وکلا ء اور عدالتی افسران کی جدید بنیادوں پر ٹریننگ کی نہ ہی عوام میں آگاہی مہم چلائی۔ ہم نے نظام عدل میں نئی جہتیں تلاش نہ کیں بلکہ اسی گھسے پٹے نظام پرتکیہ کیا۔ اسکا نتیجہسب کے سامنے ہے۔ نظام عدل بڑی دوررس انقلابی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ مگر صاحبانِ اقتدار کے پاس نہ فرصت ہے۔نہ اہلیّت، کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں۔ تاکہ اس نظام کے اصل سٹیک ہولڈرز جو اس ملک کے لاکھوں کی تعداد میں فریقین مقدمہ ہیں انکی داد رسی ہو سکے۔ انکے لئے قانون اور ضابطہ میں ترامیم کر کے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔ اپیل در اپیل کا معاملہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا اور دادا کا دائر کردہ مقدمہ پوتا بھگتتا ہے۔ ہم نے آج تک اپنا قانون شہادت ڈھنگ سے نہیں بنایا۔ شہادت کا جو معیار عدالتیں ڈھونڈتی ہیں وہ اس نظام میں مل ہی نہیں سکتا۔ قرآن پاک میں سورہ النساء میں واضح طور پر ارشاد خدا وندی ہے ’’ اے ایمان والوں انصاف پر قائم رہو اور خدا کیلئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمھارا،تمھارے ماں باپ یا رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔‘‘ جس سوسائٹی میں جھوٹ اور سچ کی شناخت ہی نہ رہے، معمولی سے دنیا وی فائدہ کے لئے بڑی آسانی سے جھوٹ بولا جاسکے اورکسی کا بھی ضمیر نہ جاگے اور عدالتوں میں برملا جھوٹی شہادت دی جائے۔ وہاں انصاف کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ چار دہائیوں تک اس نظام سے منسلک رہنے کے بعد یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ایک بھی ایسا گواہ پیش نہ ہوا جس نے اپنے بیٹے ،بھائی یا والدین کے خلاف شہادت دی ہو۔ بلکہ انکو بچانے کے لئے سینکڑوں گواہ دیکھے اور انکے بیانات لکھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور فرزند اقبال جناب ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب اپنی تقریروں میں سیالکوٹ کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے جو کچھ یوں تھا کہ۔ ایک دیہاتی آدمی سیالکوٹ میں 1960ء کی دہائی میں اپنے وکیل کے پاس آیا اور دعویٰ استقرار حق کے ذریعہ ایک ہبہ کو چیلنج کیا۔ وکیل صاحب نے پوچھا کہ تمہارے پاس گواہ ہیں۔ اس نے کہا کہ پورا گاؤں میرے حق میں گواہی دے گا۔ خیر دائری دعویٰ کے بعد دیگر رسمی کاروائیوں کے بعد دعویٰ شہادت مدعی کے لئے مقرر ہو گیا۔ تاریخ پر تاریخ پڑھتی رہی مگر وہ شخص گواہ پیش نہ کر سکا۔ عدالت نے شہادت کے لئے آخری موقع دے دیا۔ تو وکیل صاحب نے کہا کہ گواہ کیوں نہیں لا رہا۔ تو تو کہتا تھا کہ سارا گاؤں گواہی ہمارے دے گا۔ اس دیہاتی نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا۔ کہ جی وہ گاؤں کا نمبر دار بے ایمان ہو گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو سچی شہادت دوں گا۔ اسطرح کے کئی واقعات ذاتی مشاہدہ میں بھی آئے۔ جب گھر سے گواہ تیار ہو کر آیا مگر عدالت میں پیش ہو کر اس نے کہا کہ میں تو سچی بات کروں گا اور اسی فریق نے اس گواہ کو فوری ترک کر دیا۔ یہ نظام کا سقم ہے، کمزوری ہے۔کہ سچی بات کو عدالت سے چھپایا جاتا ہے۔ بلکہ لوگ گاؤں میں پنچائیت میں بیٹھ کر بے دھڑک کہتے ہیں۔ کہ یہاں سچی بات کریں گے یہ کونسی عدالت ہے۔ ان حالات میں کیسا انصاف اورکونسا انصاف۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔یہاں عدالت دو جھوٹوں میں سے ایک سچ ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی تو ایک ناقابل تردید سچ ہے کہ یہاں گواہوں کو نہ کوئی عزت، نہ تحفظ، نہ عافیت ، تھانہ کچہری میں گواہوں کے ساتھ ملزموں سے بدترسلوک روا رکھا جاتا ہے۔ پولیس اور عدالتی اہلکاران کا گواہوں کے ساتھ رویہ بعض اوقات ہتک ّآمیز اور نا مناسب ہوتا ہے۔ یہ بھی تو سسٹم کی ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ وقوعہ دیکھتے ہیں۔ وہ گواہ نہیں بنتے اور جو گواہ بنتے ہیں انہیں وقوعہ کی خبر میلوں دور بیٹھے ہوتی ہے؟(جاری ہے)