سوچ و بچار مکمل ہوا، مشاورت تمام ہوئی۔پرویز الٰہی کے دلائل اختتام کو پہنچے،عمران خان پہلے گھبرائے، پھر سوچنے کا عمل دوہرانے کا ارادہ کیا ۔مگر سوچ وبچار کا یہ عمل دوہرانے کے بعد بھی وہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلیاں توڑ دینا ہی ان کے فائدے میں ہے۔ کچھ رو ز پہلے پرویز الٰہی نے بڑے اعتماد سے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ مارچ تک کچھ نہیں ہونے والا۔ تب محسوس ہوا تھا کہ پرویز الٰہی نے عمران خان کو قائل کر لیا ہے۔ انہیں کہا گیا تھا کہ اسمبلیاں توڑنا فائدے میں نہیں ،ترقیاتی کام ادھورے ہیں، انہیں مکمل ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ عمران خان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسمبلیاں توڑنے کے بعد وفاقی حکومت حجت سے کام لیتے ہوئے تاخیری حربے استعمال کرے گی اور تین مہینے کے اندر الیکشن نہ ہونے دے گی۔ یوں ہم اپنا اختیار اٹھا کے کسی اور کے ہاتھ میں تھما دیں گے جس سے آئندہ الیکشن کے لیے ہماری پوزیشن کمزور ہو گی۔ وقتی طور پر تو محسوس ہوا کہ عمران خان پر ان دلائل نے اثر کیا ہے۔ مگر بدھ کی شام عمران خان میڈیا پر آئے تو ان کا اعلان قطعی معلوم ہوا۔کہنے لگے فیصلہ ہو گیا کہ سترہ تاریخ کو اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ دینے جا رہے ہیں ۔ اس اعلان کے بعد کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ ان میں ق لیگ کے علاوہ تحریک انصاف کے کچھ حلقے بھی شامل تھے۔ عمران خان نے کچھ دن پہلے بھی کہا تھا کہ ہمارے کچھ ایم پی ایز ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر الیکشن وقت پر نہ ہوئے تو کیا ہو گا۔ تب یہی محسوس ہوا کہ عمران خان بھی کچھ کچھ مان رہے ہیں ۔ ق لیگ کے دو مسئلے ہیں ۔ پہلی خواہش ان کی یہ ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں ۔ دوسرا وہ اگلے سیٹ میں بھی اپنے لیے بہتر سے بہتر پوزیشن کے خواہاں ہیں۔ایک اخباری خبر کے مطابق ق لیگ نے عمران خان سے اگلے الیکشن کے لیے قومی اسمبلی کی دس اور صوبائی اسمبلیاں کی بیس نشستیں مانگ لی ہیں۔ یعنی ق لیگ چاہتی ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی کی کم از کم دس سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے نہ کرے اور ان سیٹوں پر ق لیگ کے امیدواروں کو سپورٹ کیا جائے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی بیس سیٹوں پر تحریک انصاف ق لیگ کے لیے قربانی دے۔لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف ایسا کیوں کرے گی۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ق لیگ کی یہ فرمائش غیر منتطقی لگی ہے۔ 2018کے انتخابات میں ق لیگ نے تحریک انصاف ہی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی کی دس اور قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں حاصل کی تھیں ۔تحریک انصاف ہی کی مدد سے حاصل کی گئی ان نشستوں کے ساتھ ق لیگ نے اکثر مواقع پر حکومت کوکئی مرتبہ ٹف ٹائم بھی دیا تھا اور کئی بار اتحاد چھوڑنے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ گویا اس بار تحریک انصاف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ق لیگ کو زیادہ مضبوط طریقے سے منتخب کرائیں تا کہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر زیادہ ٹف ٹائم دیا جا سکے؟ سنا ہے تحریک انصاف نے بھی ق لیگ سے ایک فرمائش کی ہے۔تحریک انصاف نے پیغام بھیجا ہے کہ اگر ق لیگ مستقبل میں زیادہ مراعات اور حکومت میں زیادہ حصہ چاہتی ہے تو وہ خود کو تحریک انصاف میں ضم کر دے اور اگلا الیکشن بلے کے نشان پہ لڑے۔ سنا ہے مونس الٰہی تو اس تجویز کے زیادہ مخالف نہیں لیکن پرویز الٰہی ایسا نہیں چاہتے۔ پرویز الٰہی بطور جماعت اپنی شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ ق لیگ اس وقت خود بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک دھڑا چودھری شجاعت کے ساتھ ہے اور دوسرا پرویز الٰہی کے ساتھ۔ دو ایم این ایز پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے ہیں ،تین بڑے چودھری صاحب کے ساتھ۔ امید یہی ہے کہ الیکشن سے پہلے دونوں دھڑے ایک ہو جائیں گے اور گلے شکوے دور کر کے ایک ساتھ سیاست کریں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اس وقت جو سیٹیں مانگ رہے ہیں وہ صرف اپنے گروپ کے لیے مانگ رہے ہیں یا چودھری شجاعت کے لیے بھی۔ تحریک انصاف میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ ق لیگ اگر تحریک انصاف میں ضم ہو بھی جائے تو اسمبلیوں میں آنے کے بعد اپنا ایک گروپ بنائے رکھے گی۔ اسے ق لیگ گروپ کہا جائے، ق لیگ بلاک کہا جائے یا کچھ بھی، مگر یہ گروپ اپنی الگ شناخت برقرار ضرور رکھنا چاہے گا۔ ایسے میں تحریک انصاف کو ق لیگ کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے بہرحال احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ ایک اور بات بھی تحریک انصاف کے پیش نظر ہے ۔ مقبولیت کے اس عروج پر تحریک انصاف سے زیادہ ق لیگ کو اس کی ضرورت ہے۔ یقینا گجرات میں چودھری مضبوط ہیںوہاں تحریک انصاف چودھریوں سے جیت نہیں سکتی ۔ لیکن گجرات سے باہر تحریک انصاف اگر اپنے لوگ کھڑے کر دے تو ق لیگ کو نقصان پہنچے گا۔ لہذا بہت سوچ و بچار کے بعد دونوں جماعتوں کو اپنے سیاسی اتحاد کر پروان چڑھانا ہے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہو گی کہ ق لیگ کے بغیر ہی انہیں حکومت بنانے کا مطلوبہ نمبر حاصل ہو جائے۔ق لیگ اضافی سیٹوں کے ساتھ اگر حکومت کا حصہ بنے تو تحریک انصاف کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ق لیگ حکومت سازی کے لیے اہم ہو گئی تو تحریک انصاف کو پہلے جیسی سیاسی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخری بات یہ کہ چودھری شجاعت اگر ق لیگ کے دونوں دھڑوں کو ایک کرنے پر راضی ہوتے ہیں تو کیا تحریک انصاف انہیں بھی قبول کرے گی۔ یعنی تحریک انصاف پرویز الٰہی کے ساتھ تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے راضی ہے کیاوہ چودھری شجاعت کے دغا دینے والے ایم این ایز کو بھی اپنا لے گی؟اور کیا پرویز الٰہی چودھری شجاعت گروپ کے لیے بھی تحریک انصاف سے سیٹیں مانگیں گے۔ سوال بہت سے ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلیں گے۔