مکرمی !بڑے بڑے الزمات کے ملزم قانون میں دیئے گئے ہر قسم کے حقوق اور سہولیات حاصل کرنے کے بعد بھی نظام عدل کو خاطر میں نہیں لاتے اور تنقید کے تابڑ توڑ حملے اپنا جوابی حق جانتے ہیں،پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو نہ صرف ان ملزمان کے نخرے اٹھانا پڑتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ان اداروں کو ایسے ملزمان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور مختلف نوعیت کے تاخیری حربے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں ،بڑے ملزمان قانون کی گرفت میں آنے کے بعد اگرچہ تمام مروجہ سہولیات حاصل کر لیتے ہیں مگر پھر ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور ان کیلئے نہ صرف ایک میڈیکل بورڈ ترتیب پاجاتا ہے بلکہ ان کو فوری طور پر اعلیٰ ہسپتالوں میں آرام کیلئے داخل کرادیا جاتا ہے ،ایسے ملزمان پر تھرڈ ڈگری کا استعمال تو دور کی بات پولیس کیلئے ان سے سوالوں کے جواب حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ،ان ملزمان کی گرفتاری بھی عدالتی حکم کے بغیر عمل میں نہیں لائی جا سکتی بلکہ حکمنامے کے بعد بھی ان کو گرفتار کرلینا امر محال ہی ہوتا ہے ، گرفتار شدہ ملزمان سے ان کے احباب کی ملاقاتیں اور گھر سے آنیوالے کھانے وغیرہ روکنا بھی پولیس کے بس کی بات نہیں ہوتی ،جیل میں آرام دہ بستر،پنکھا،اے سی،اخبار،کتابیں وغیرہ کا حصول ان لوگوں کے نزدیک بنیادی حقوق میں شامل ہے ،دیکھا جائے تو پولیس ان شہریوں کے آگے بے بس ہی نہیں بلکہ بھیگی بلی ثابت ہوتی ہے ،جبکہ غریب لوگوں پر پولیس قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے فوری طور پر اصلاحات کی جائیں ،موثر قانون سازی کے ذریعے ہی عوام کو اس جابرانہ نظام سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔(ایم شفیق اسلام آباد)