پاکستان کی جمہوری سیاست میں رکاوٹوں اور تعطل کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔اس تاریخ کی تشکیل میں غیر سیاسی قوتوں کی اثراندازی اپنی جگہ مگر سیاسی جماعتوں اور قائدین کے روئیے بھی ملک میں جمہوری سیاست کے لئے حوصلہ افزاء نہیں رہے۔2018ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل شدہ حکومتیں اگست 2023ء میں اپنی مدت مکمل کر رہی تھیںاور نئے انتخابات تین ماہ میں ہوجانے تھے مگر حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ عمران خاں کی وفاقی حکومت کووقت سے پہلے یعنی اپریل 2022ء میں ہی ہٹا دیا اور وفاق میں اتحادی حکومت قائم ہوگئی۔سیاسی صورتحال میں ہنگامہ خیزی اس وقت اور زیادہ بڑھ گئی جب پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں وزرائے اعلی کی سفارش پر جنوری 202ء میں تحلیل کر دی گئیں۔ آئینی تقاضہ کے تحت صوبائی سطح پر انتخابات اپریل 2023ء میں ہونا تھے جو نہیں ہوئے۔اس ضمن میں عدالتی احکامات کو بھی نظرانداز کیا گیا ۔اور ملک میں ایک ساتھ ، صوبوں اور وفاق میں ، انتخابات پر سیاست دانوں کی جانب سے اصرار کیا گیا۔ اور جب اگست 2023ء میں وفاق میں حکومت کی مدت مکمل ہوگئی تو آئین کے بموجب انتخابات نومبر 2023 ء ہونے ضروری تھے مگر اس بار بھی انتخابات کے انعقا د کے آئینی تقاضے سے انحراف کیا گیا تاہم اب الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لئے 8 فروری 2024 ء کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے اور وہ ا س تاریخ پر الیکشن کرانے کے لئے پر عزم بھی ہے لیکن الیکشن کو مزید آگے بڑھا نے کی بازگشت بھی سیاسی فضاء میں موجود ہے اور جواز اس کا یہ دیا جارہا ہے کہ اس وقت انتخابات سے زیادہ ملک کی معیشت کو درست کرنا زیادہ اہم ہے ۔نگراں حکومت کی توجہ بھی معیشت کے سدھار پر زیادہ ہے اور اس میں انہیں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی بھی بھرپور معاونت اور رہنمائی حاصل ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ بھی نگراں حکومت کی کارکردگی پر اپنے اطمینان کا اظہار کر چکا ہے اور مزید مالیاتی وسائل قرض کی صورت فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔دیگر دوست ممالک بھی سرمایہ کاری پر آمادہ ہورہے ہیں۔ملک کی معیشت کے دیگر اشارئیے بھی مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں لہذا غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ موجودہ نگراں حکومت کو مزید وقت دیا جائے تاکہ معیشت کی بحالی کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ جاری رہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق حکومتی ذرائع یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت معاشی امور کو جس انداز سے بہتری کی جانب لے جایا جارہا ہے انتخابات کے باعث ان کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ انتخابات ہونے کی صورت میں یہ خدشہ بحر حال موجود ہے کہ اگر کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکی تو معاشی بہتری کی جانب بڑ ھتے ہوئے قدم کہیں رک نہ جائیں۔نگراں حکومت کی جانب سے اس بات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد نگراں حکومت میں توسیع اور انتخابات کے التوا سے متعلق وزیر اعظم سے مشاورت ہونی ہے۔اس طرح کے بیانات سے انتخابات سے متعلق شبہات پیدا ہو رہے ہیں جس سے اس موقع پر گریز کیا جانا چاہیئے۔ دوسری طرف سیاسی قیادت بھی الجھنوں کا شکار ہے اور وہ اب تک جب کہ انتخابات میں دو ماہ کا وقت رہ گیا ہے انتخابات کے لئے یکسو نہیں ہے۔پاکستان تحریک انصاف میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ، مقدمات میں پھنسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی پالیسی کے باعث اس کاسیاسی مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے ۔ عوام میں مقبولیت کے باوجود اس پارٹی کی قیادت کا طرز عمل اس کی قبولیت کی راہ میں حائل ہے۔اگر کسی وجہ سے تحریک انصاف کو ان انتخابات میں آزادانہ شرکت کا موقع نہیں ملا تو انتخابات کا عمل ادھورا اور غیر شفاف ہی سمجھا جائے گا۔ جس کے نتائج سیاسی عدم استحکام کی صورت سامنے آئینگے ۔ لہذا اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیئے کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع حاصل ہوں ۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ، اختلافات کے باوجود ، تحریک انصاف کے انتخابات میں حصہ لینے کے سیاسی حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیئے اور ایسی تمام کوششوں کی ، جس سے تحریک انصاف کے انتخابات میں آزادانہ شرکت ممکن نہ ہورہی ہو ، اس کی مزاحمت کرنی چاہیئے۔ اس سلسلے میں فرانسیسی مفکر والٹیئر ) Voltaire ) کا یہ قول ایک رہنما اصول کے طور پر سیاسی جماعتوں کے پیش نظر ہونا چاہیئے جس میں اس نے کہا کہ ’’ مجھے آپ سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مگر میں آپ کے آزادی ء اظہار رائے کے حق کا دفاع کرتا رہونگا۔‘‘جمہوری سیاست کے فروغ کے لیے سیاسی جماعتوں کو یہ طرز عمل اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں اس جمہوری سوچ کا فقدان ہے۔شفاف انتخابات کے لئے مقابلے کے سیاسی ماحول کا ہونا بھی بہت ضروری ہے شفاف انتخابات کے انعقاد سے ہی جمہوری سیاسی عمل آگے بڑھے گا۔ ا نتخابات جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں اس میں مزید تاخیر،خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو ، ملک کے سیاسی مستقبل کے لئے درست نہیں۔ اس سلسلے میں پیدا کئے جانے والے اندیشے اور خدشات جمہوری عمل پر عدم اعتماد کا اظہار ہیں۔سیاسی جماعتوں کو اس ضمن میں واضح موقف اختیار کرتے ہوئے انتخابات کے مزید التوا کی مزاحمت کرنی چاہیئے۔ نگراں حکومت کی کارکردگی خواہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو وہ منتخب حکومت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی اور نہ ہونا چاہیئے۔ ایک منتخب حکومت ہی عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے ۔ نگراں حکومتیں پہلے ہی اپنی آئینی مدت سے متجاوز کر چکی ہیں ۔آئینی تقاضے اور عدالتی فیصلے بھی نظر انداز کئے جاچکے ہیں ۔ انتخابات میں اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔ ریاست کے معاملات بہت دیر تک آئین سے انحراف کرتے ہوئے نہیں چلائے جاسکتے ۔ اس روش کو ترک کر نا ہوگا ۔بصورت دیگر خسارہ ہی خسارہ نوشتہ ء دیوارہے!!