لاہور ( رانا محمد عظیم) پچھلے 15سال میں چاروں صوبوں میں کہاں کہاں ترقیاتی فنڈز کے نام پر غبن کیا گیا، کتنے فنڈز ترقیاتی کاموں کو چیک کئے بغیر جاری ہوئے ، ایک ہی سکیم پانچ سال میں کتنی بار منظور کی گئی اور سرکاری خزانے سے جانے والی رقوم کس کے پاس گئیں۔ ترقیاتی کاموں کے علاوہ سرکاری عمارتوں کی تعمیر، محکمہ پولیس، ایکسائز ،صحت اور دیگر شعبوں کے فنڈز میں کہاں کہاں اور کیا بے ضابطگیاں اور دو نمبری ہوئی،کے حوالے سے رپورٹ تیار ہو گئی۔ ترقیاتی اور دیگر فنڈز میں غبن کے حوالے سے صوبہ بلوچستان پہلے ، سندھ دوسرے ،کے پی کے تیسرے اور پنجاب چوتھے نمبر پر ہے ۔ پنجاب میں مختلف اضلاع کے ساٹھ فیصد منظور شدہ فنڈ لاہور اور دیگر شہروں پر لگائے گئے جبکہ چالیس فیصدفنڈزبا اثر مافیا کی جیبوں میں جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔ با وثوق ذرائع کے مطابق بلوچستان میں پسماندگی کی اصل وجہ پچھلے پندرہ سال میں مختلف سکیموں کیلئے جاری کردہ فنڈز کا وزرائ، اراکین اسمبلی اور بیوروکریسی کے ذاتی اکاؤنٹس میں جانا ہے ،یہاں ترقیاتی کام صرف کاغذوں میں ہوئے ۔ صرف تیس فیصد فنڈز ترقیاتی کاموں پر استعمال کئے گئے ۔ بلوچستان میں صرف وہ ترقیاتی کام حقیقت میں ہوئے جو عسکری حکام کی نگرانی میں رہے ، کئی اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹس کے حوالے سے تو یہاں تک لکھا گیا ہے کہ ان کے دفاتر میں ہی ترقیاتی سکیموں کا ’’فیصلہ‘‘اور رقوم تقسیم ہوجاتیں۔ کئی ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر کے بلاک تک کاغذوں میں بنے ۔سندھ میں صرف 52 فیصد فنڈز ترقیاتی کاموں پر لگائے گئے اور 48 فیصد فنڈز کے ساتھ بلوچستان والا سلوک ہوا ۔ اندرون سندھ میں با اثر اراکین اسمبلی اور وزراء چاہے ان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق تھا نہ صرف خود ان کاموں کو رکواتے بلکہ ان کی رقوم با آسانی ہضم کر جاتے تھے ۔ گڑھی یاسین، نوابشاہ، گھوٹکی، سکھر، میر پورخاص سمیت دیگر اضلاع میں ایک ایک سڑک پانچ سالہ دور میں کئی کئی مرتبہ منظوراور فنڈز جاری ہو چکے ۔ 300 سے زائد سکولوں کی اپ گریڈیشن کیلئے جاری فنڈز بھی صرف آٹھ فیصد سکولوں پر لگے ،باقی سیاسی اور سرکاری مافیا کی جیبوں میں گئے ۔خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں کافی حد تک ان گھپلوں پر قابو پایا گیاتاہم اب کئی فنڈز کے غلط استعمال کے ثبوت رپورٹ میں موجود ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں 48 فیصد فنڈز کسی حد تک استعمال جبکہ 52 فیصد کرپشن کی نظر ہوئے ۔پنجاب میں65 فیصد فنڈز کسی حد تک ترقیاتوں منصوبوں پر لگے تاہم تعمیراتی معیار ناقص تھا،35 فیصد فنڈز بیوروکریسی کی جیبوں میں گئے ۔رپورٹ کو اہم اداروں کو بھیجا جا رہا ہے جس کے بعد اس پر قانونی ایکشن کا فیصلہ ہو گا۔