مدینہ، شہرِ بے مثال… آج سے چودہ سو پینتالیس سال قبل ، وہ عظیم ہستیؐ جن پر اپنے عزیز ترین شہر سے استقامت کے ساتھ سچ بولنے، دوستوں، دشمنوں کی امانتیں سنبھالنے، بگڑے ہوئے معاشرے میں عدل و انصاف کا چلن عام کرنے، اصلیت سے بھٹکے ہوئے لوگوں تک خدا کا حقیقی پیغام پہنچانے، شِرک میں لِتھری ہو ئی مخلوق کو توحید کا درس دینے، اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پرستش سے منع کرنے، نیز جھوٹ، فراڈ، چوری، سینہ زوری، زنا، دُخترکُشی جیسی برائیوں کو ممنوع قرار دینے کی پاداش میں اپنی جنم بھومی اتنی تنگ کر دی گئی کہ رات کے اندھیرے میں با دلِ نخواستہ اور بہ چشمِ نم یہ سرزمین چھوڑنی پڑی۔ یہ ہجری کیلنڈراسی ایثار،اسی قربانی، اسی زمینی تبدیلی، اسی تاریخی ہجرت، اسی جمود بے زاری، اسی امیدِ نَو، اسی سماجی اونچ نیچ، جدید اسلامی معاشرے کے اسی ارتقائی آغاز کی یادگار ہے۔یہ ادائے دلبری اللہ تعالیٰ کو ایسی بھائی کہ جو اِس کٹھن راہ میں ساتھ چلا یارِ غار بن گیا، جس اُونٹنی پہ سواری کی، کسویٰ کہلائی، جس گھر میں قیام کیا مقدس ٹھہرا، جن لوگوں نے صدقِ دل سے ساتھ نبھایا، وہ رہتی دنیا تک کے لیے عظمت کی مثال بن گئے۔ جو مسجد بنائی وہ آج تک کائنات کے سینے پہ روشنی اور رحمت کی علامت بنی کھڑی ہے۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی: سحر ایسا کہ مسخر کرے گویائی کو حسن ایسا کہ پلک سے نہیں لگتی ہے پلک شہر ایسا کہ جو نہ صرف سنگ ریزوں کی وادی یثرب سے شہرِ بے مثال مدینہ کا رُوپ اختیار کر گیا بلکہ آج تک تمدن، تہذیب، ترتیب کی سب سے خوب صورت علامت ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبیں آج بھی یہاں سے سلیقہ سیکھنے اور تسکین حاصل کرنے آتی ہیں۔ مَیں بیس سال قبل یہاں آیا تھا تو مسجدِ نبوی، دورِ نبوی کے پورے مدینہ شہر تک محیط ہو چکی تھی۔ اب تو زائرین کی روز افزوں تعداد،بدلتے حالات، وقت اور ضرورت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مدینہ کے مضافات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ یہ شہر قدیم و جدید کا حسین سنگم ہے، ایک جانب دنیا بھر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کھڑے جدید ترین ہوٹل ہیں اور دوسری طرف مسجدِ فتح اور جنگِ خندق میں شریک صحابہ کرام ؓ کی قدیم نشانیاںرکھی ہیں، جن کو آنکھوں اور کیمروں میں محفوظ کرنے کے لیے دنیا بھر سے عقیدت مند اُمڈے پڑتے ہیں ۔ مدینہ کی پہلی بلکہ روپہلی صبح انواع و اقسام سے مزین دیسی، ولایتی، عربی، عجمی، انگریزی ناشتے سے خالص پنجابی انداز میں نمٹنے کے بعد گروپ کے پروگرام کے مطابق بابِ فہد سے داخل ہوتے ہوئے ریاض الجنہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ پروگرام ترتیب دینے والوں کو حاجیوں کے رَش اور کرَش کا اندازہ تھا، اس لیے انھوں نے ترکیب اور ترتیب یہ رکھی تھی کہ نمازِ ظہر ریاض الجنہ میں پڑھی جا سکے۔ ترکیب کامیاب ہوئی اور سب نے نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ نمازِ ظہر اسی مقدس و متبرک جگہ پہ ادا کی۔ نماز کے بعد وہاں وطنِ عزیز کی بہتری کے لیے جی بھر کے دعائیں مانگی گئیں کہ یا خدا اِس ملک پاکستان پر جس جس آسیب کا سایہ ہے اُسے جلد از جلد دُور بلکہ دفع دُور فرما دے اور جو جو جس جگہ غلط ہے، اسے حرفِ غلط کی طرح مٹا دے۔ اس کے بعد ذاتی طور پر تاکید کنندہ احباب اور فیملی کے لیے نرینہ، نگینہ اولاد، کسی حد تک اپنے لیے اور ایف سی کے انگلش مزاج طلبہ و طالبات کی غلط اُردو میں لکھ کے دی ہوئی دعاؤں (ان کی نیت ظاہر ہے درست تھی) کو صحیح انداز میں مانگا۔ اذان اور نمازوں کے لیے پورے مدینہ اور اس کے مضافات کے لیے ایک وقت مقرر ہے ۔ اذان کے ساتھ ہی کیا تاجر، کیا مہاجر سارے کام چھوڑ کے مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ تقریباً ہر نماز کے بعد مدینہ اور مضافات کے فوت شدگان کے لیے نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور دونوں نمازوں کی تکمیل کے ساتھ بیشتر لوگ اپنے گھروں، دکانوں، ہوٹلوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اذان اور تکبیر میں ارکان کی کمی بیشی کا فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے۔وہ نماز جنازہ میں صرف دائیں جانب سلام پھیرتے ہیں ۔ (سعودی عرب میںائمہ اربعہ میں سے امام احمد بن حنبل ؒ کے مسلک پر عمل کیا جاتا ہے لہذا ان حنابلہ کے نزدیک کئی مسائل احناف سے مختلف ہیں) ۔جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے باقی رسومات و عادات کی طرح عبادات پہ تحقیق کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ وہاں کے لوگوں کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہے کہ پوری کی پوری نماز، مستند اور مسنون دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اپنے ہاںشروع شروع میں میرے سوال اٹھانے پر بتایا گیا کہ کسی کے فاتحہ پر دعا نہ مانگنا وہابیوں کا شیوہ ہے۔ پھر جب پڑھے لکھے سُنی حضرات سے رجوع کیا تو انھوں نے بھی نبی پاک ﷺ کی دعا سے متعلق عربیوں کے طریقِ کار کی تصدیق کی بلکہ ایک دفعہ کسی دوست کی عزیزہ کی تعزیت کے موقع پر پروفیسر احمد بادات کہ جو جامعہ اشرفیہ کے فارغ التحصیل ہیں، سے درخواست کی گئی کہ دعا فر ما دیجیے۔ انھوں نے میزبان کی خواہش پر دعا تو کرا دی لیکن ساتھ ہی وضاحت کی کہ حضور پاکؐ سے کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ انھوں نے نمازِ جنازہ کے علاوہ کسی مرحوم کے لیے ہاتھ اٹھا کے دعا کی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عبادات کے معاملے میں سنتِ نبویؐ پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ بعض لوگ بحث کرتے ہیں کہ دعا کرنے میں حرج کیا ہے؟ پہلا حرج تو یہ ہے کہ ہم نبیؐ کے طریقے پر نہیں رہتے اور میرے خیال میں رٹی رٹائی دعاؤں کی اس تکرار سے نماز کا اصل مقصد متاثر ہوتا ہے۔ نماز جو مختلف دعاؤں، التجاؤں، آشاؤں اور تجدیدِ عہد کا گلدستہ ہے، دعا جو بھیک ہے، بھیک ہے، ترلہ ہے، ہاڑا ہے، وہ بازار یا مجمعے کی چیز تو ہے ہی نہیں، یہ تو تنہائی کی ہمسائی ہے۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ دعا کڑاکے دار ریوڑیاں تلنے کا نام نہیں۔ دعا مانگی نہیں جاتی دل سے نکلتی ہے اور اسی میں تاثیر ہوتی ہے۔ بقول شاعرِ مشرق: بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے اس طرح ہم دعا کی اصل نوعیت اور اہمیت سے واقف ہی نہیں ہو پاتے۔ اسی ’انحصار‘کا نتیجہ ہے کہ آج بھی نوے فیصد سے زیادہ لوگ نماز کے مفہوم و معانی سے شناسا ہی نہیں۔ لوگ دو رکعت کے امام کی رٹا مارکہ دعا ہی کو عبادت سمجھنے لگتے ہیں۔ آپ خود ہی سوچیے کہ جب تک ہمیں نماز کا مفہوم معلوم نہیں ہوگا، ہمیں ’سبحانک اللہ‘ میں بیان کی گئی صفات کا علم کیسے ہوگا؟ ہمیں سورہ فاتحہ میں مذکور ’رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالکِ یوم الدین جیسے اختیارات واحترامات کی خبر کون دے گا؟ سب سے بڑی بات جو نماز کا اصل مقصد بھی ہے کہ ہمیں ’ایاک نعبدُ وایاکَ نستعین‘ کی صورت ربِ رحیم سے بار بار کیے جانے والے وعدے، معاہدے سے انحراف و اختلاف کی خبر ہی نہیں ہو پاتی۔ (جاری)