برِّصغیر کی تقسیم کا واقعہ اچانک پیش نہیں آیا اس بٹوارے کا پس منظر دینی و مذہبی تصورات، تہذیبی و ثقافتی نظریات ، سیاسی واقعات و حوادث اور مسلمانان ہند کی بد ترین معاشرتی اور اقتصادی حالات پر مبنی تھا۔ 1935ء کا انڈیا ایکٹ نافذ ہو چکا تھا جو برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کر لیا تھا۔ اس قانون کی رو سے ہندوستان میں وفاقی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے تحت صوبوں کو حق خود اختیاری کے وسیع اختیارات دے دئیے گئے تھے۔ہندوستان سے برطانوی سامراج رخصت ہونے والا تھا اور ہندو اکثریت واحد قومیت کے بنیادکے اصولوں پر اس کی جگہ لینے والی تھی۔اس صورتحال میں انڈین نیشنل کانگریس کے قیام سے 1935ء کے ایکٹ کے نافذ العمل تک جو تقریبا نصف صدی پر محیط تھا مسلمانان ہند مسلسل تذبذب میں مبتلا رہے اور وہ بوجوہ اپنے لیے کوئی صحیح سمت کا تعین نہ کر سکے۔ نئی صورتحال اور برہمن کے روئیے کو بھانپتے ہوئے مسلمانانِ ہند نے کوشش کی کہ برطانوی حکمران ، حکومت کے اختیارات ہندوستان کے ہندو باشندوں کومنصفانہ اصولوں کی بنیاد پر منتقل کریں لیکن جب یہ پالیسی چلتی نظر نہیں آئی تو انہوں نے بادلِ نخواستہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کی بنیاد پر جمہوری حکومت کے اصول کو تسلیم کر لیا البتہ یہ مطالبہ کیا کہ اس نظام میں ان کے لیے ایسے آئینی تحفظات مہیا کیے جائیں جس سے ان کی نظریاتی و تہذیبی انفرادیت برقرار رہ سکے۔ اس ضمن میں متعدد بار مذاکرات ہوئے اور ان مذاکرات کے نتیجے میں کئی میثاق اور معاہدے طے پائے ۔ در حقیقت اس وقت مسلمانان ہند فکری تضاد کا شکار تھے ایک طرف وہ ہندوستان میں اپنا نظریاتی و تہذیبی وجود متعصب ہندوئوں سے الگ تھلگ برقرار رکھنا چاہتے تھے دوسری طرف وہ جس سیاسی سفر پر چل رہے تھے اس کی آخری منزل متحدہ قومیت کی بنیاد پر قائم ہونے والی لا دینی و جمہوری نظام کی تھی جس میں مسلمانوںکی جداگانہ قومیّت اور دینی و تہذیبی وجود برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔ جب برصغیر سے انگریز سامراج کے اقتدار کے خاتمے کا وقت آن پہنچا تو ہندو قیادت نے قائد اعظم کو شیشے میں اتارنے کے لیے حیلے بہانے اختیار کیے۔ مذاکرات کی بے مقصد مہم شروع کی لیکن قائد کی بصیرت نے اس مہم کو نا کام بنا دیا اور با لآخر انگریز مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس وقت حالات اس قدر خراب تھے کہ اگر یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا جاتا تو برصغیر بد ترین خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا۔ کیونکہ ہندو مسلمانوں سے صدیوں کی غلامی کا بدلہ لینے کے لیے غلبہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔جس کے جواب میں مسلمانوں کا ردِ عمل دکھانا فطری امر تھا کیونکہ مسلمان یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ انگریز کے جانے کے بعد برصغیر کے سیاسی اقتدار پر ان کا حق ہے کیونکہ انگریز نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا۔ جبکہ ہندو اس وقت مسلمانوں کے زیرنگین تھے۔ چنانچہ پاکستان کے قیام کو یقینی دیکھتے ہوئے ہندو بپھرگئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف پر تشدد مہم کا آغاز کیا۔ 14 اگست 1947ء کو جب دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں ایک مسلمان ریاست ابھر رہی تھی تو دوسری طرف جنونی ہندوئوں کی درندگی کا مظاہرہ جاری تھا اور مسلمانوں کی گردنیں کٹ رہی تھیں۔ عفت مآب خواتین کی عزتیں لٹ رہی تھیں۔ شیر خوار بچے نیزوں پر اچھالے جا رہے تھے۔ بد ترین وحشت کا بازار گرم تھا اور یوں برصغیر کے لاکھوں مسلمان اپنے خون سے پاکستان کی مانگ سجا رہے تھے۔ جوں جوں تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کے امکانات واضح ہوتے جا رہے تھے ۔ اسی رفتار سے ریاست جموںوکشمیر کے خلاف سازش کے تانے بانے بننے کا عمل جاری تھا ۔اس حوالے سے بھارت اور برطانیہ کا گٹھ جوڑ سامنے آیا اور ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے اور اسے بھارت کا حصہ بنانے کے لئے برطانوی حکومت نے بھر پور ساتھ دیا۔ خیال رہے کہ تقسیم ہند کے وقت ریاست جموںوکشمیر اس علاقے کی خود مختار ریاستوں میںسب سے بڑی ریاست تھی اوراس ریاست کاحکمران جموں کاہندو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔ مگرتقسیم برصغیر کاجو فارمولہ طے پایا اس میں ان تمام خودمختار ریاستوں کوہندو یا مسلمان اکثریت ہونے کے اعتبارسے پاکستان یا بھارت میں شامل ہونا تھا۔چونکہ ریاست جموںوکشمیرکی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پرمشتمل تھی اس لئے مذہبی ، ثقافتی اور جغرافیائی ، ہر لحاظ سے کشمیر کی پاکستان کے ساتھ ایک وحدت بنتی ہے۔ لیکن جب کانگریس نے ڈوگرہ حکمران اور شیخ عبد اللہ کے ساتھ ساز بازکرلی بالآخر کانگریس کو اس سازش میں کامیابی حاصل ہوئی تو شیخ عبد اللہ نے نیشنلزم اور سوشلزم کو اپناتے ہوئے مسلم کانفرنس میں نظریاتی تضاد اور دراڑ پیدا کرتے ہوئے نہ صرف مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا بلکہ محاذ رائے شماری کے مطالبے اور اس حوالے سے تگ و دو کرنے کو’’ آوارہ گردی‘‘ قرار دیکر نیشنل کانفرنس کو کشمیر میں کانگریس کی ذیلی تنظیم بنا دیا اسی کروٹ کے ساتھ شیخ عبد اللہ کشمیری گاندھی بن گیا اور گانگریس کا ناپاک منصوبہ اس طرح طے پایاکہ کشمیر کے ہندوستان سے ’’اس فراڑ‘‘ الحاق کوتب تک کھلم کھلا افشا نہ کیا جائے جب تک کہ حیدر آباد پر قبضہ نہ کر لیا جائے۔ کشمیر پر بھارتی جبری قبضے کے لئے برطانوی واسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن اور کانگریس کے درمیان ضلع گورداسپور کے بارے میں پہلے سے ہی ایک سازش پنپ چکی تھی۔3جون1947ء کے منصوبے کے اعلان کے فوراً بعد ہی مائونٹ بیٹن نے کشمیر کا دورہ کیا اور مہاراجہ سے کہا کہ وہ فی الوقت کسی ملک سے بھی الحاق کا فیصلہ نہ کرے بلکہ اپنے عوام کی رائے معلوم کرے پھر فیصلہ کرے۔ اس دوران قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر جانے کا ارادہ کیا لیکن مائونٹ بیٹن نے آپ کے دورہ پر اعتراض کر دیا۔ چنانچہ آپ نے دورہ منسوخ کر دیا۔ جبکہ یکم اگست 1947ء کو گاندھی نے کشمیر کا دورہ کیا ۔ اس دوران کانگریسی قیادت نے مہاراجہ کو عبد اللہ کارڈ کے ذریعے بلیک میل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کانگریس نے کشمیرمیں اپنی فوج اتاردی اوریوں نامکمل تقسیم برصغیرکاملبہ ریاست جموں وکشمیر پرگرایا گیا وہ دن اورآج کادن کہ کشمیر سولی پرلٹک گیا۔