یہ کراچی کے ان دنوں کی بات ہے جب شہر پرایم کیو ایم کا راج تھا جس کے قائد ٹھنڈے ٹھار لندن کے مہنگے علاقے میں قوم کے غم میں دبلے ہوئے جاتے تھے۔ وہ بے شک کراچی میں نہیں تھے لیکن بھائی کا آرڈر چلتا تھا بھائی نے کہہ دیا دن ہے تو کسی کی مجال نہیں کہ اماوس کی رات کو بھی رات کہہ دے۔ بھائی نے کہہ دیا رات ہے تو سورج سوا نیزے پر آاترے ،روشنی ایسی ہو کہ بندہ بھوسے کے ڈھیر سے بھی سوئی کھوج لے وہ رات ہی کہلائے گی دن نہیں ۔ان دنوں ایک رابطہ کمیٹی بھی ہوا کرتی تھی ہوتا یہ تھا کہ رات کو بھائی کا قوم سے ٹیلی فونک خطاب کو جی چاہتاوہ عزیزآباد کے میدان میں قوم کو بلا لیتے اب بھائی نے مخصوص انداز میں خطابت کے جوہر دکھائے گرجے برسے، میدان میں پرجوش نعروں ترانوں سے دل کو سکون پہنچایا اور خدا حافظ کہہ کر لائن کاٹ دی دوسرے دن اخبارات کی سرخیوں میں بھائی کا خطاب شائع ہوا جس کے کچھ حصوں پر حقوق کے حصول میں رخنہ پڑنے کا اندیشہ ہوا تو وضاحت کے لئے رابطہ کمیٹی نے نیوزکانفرنس بلا لی کہ بھائی !یہ جو اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے بھائی کا ایسا مقصد ہر گز نہیں تھا ۔ان دنوں رابطہ کمیٹی کے دو ہی کام تھے اک تو ہڑتال کا اعلان اور دوسرا الطاف بھائی کی تقاریر کے بعد ان کے قابل اعتراضات حصوں کی وضاحتیں دینا بالکل اسی طرح جیسے آج کل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما میڈیا کے سامنے وہ وضاحتیں پیش کر رہے ہوتے ہیںجن سے معاملہ مزید الجھ جاتا ہے دونوں جماعتوں میں یہ عجیب حسن اتفاق ہے ۔ایم کیو ایم کے قائد کی طرح عمران خان صاحب کا بت تراش لیا گیا ۔ الطاف بھائی کے جی میں آیا کہ مذہبی پیشوا بناجائے ،سو انہیں پیر صاحب کہہ کر پکارا جانے لگا ، پیر صاحب کی کرامات پر سردھنتے جاتے ،یہی کچھ یہاں بھی ہے خان صاحب نے تسبیح سنبھالی اور ’’مرشد‘‘ ہوگئے ان کی گفتگو میں ’’اسلامی ٹچ ‘‘ نمایاں ہوگیا ،ایم کیو ایم کے ان دنوں کے کارکن بھی پیر صاحب کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہ ہوتے تھے’ یہاں بھی ’’مرشد‘‘ کے کسی پیروکار سے بات کر کے دیکھ لیجئے میرے ایک عزیز ،د وست جن سے میری برسوں کی یاد اللہ رہی وہ محض اس بات پر مجھ سے قطع تعلق کر بیٹھے کہ میں باطل کے خلاف حق کے ساتھ نہیں ، میرے وہ دوست پنج وقتہ نمازی ، ذکر و فکر والے اوردل کے سخی ہیں وہ اچھی پوسٹ پر ہیں لیکن ہیں تو تنخواہ دار اس کے باوجود ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کرتے اس کے باوجود عمران خان کے معاملے میں میرے لئے دل تنگ کر بیٹھے میں نے بہتیرا سمجھایا کہ بھائی سیاسی اختلاف پر برسوں کا تعلق تو ختم نہیںہوسکتا لیکن وہ ایساکر گئے۔ ایسا ہی الطاف بھائی کے کارکنوں کارویہ ہوتا تھا ۔ایم کیوایم نے بھی جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کی اورخوب کی لیکن پی ٹی آئی نے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا ۔ایم کیو ایم میں بھی الطاف حسین کی ڈکٹیٹر شپ تھی اور پی ٹی آئی میں بھی کوئی کپتان سے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ایم کیو ایم نے بھی ’’ رہنما چاہئے ‘‘کا نعرہ لگایا اور یہاں بھی صورتحال ایسی ہی ہے ۔ایم کیو ایم نے بھی سیاست میں تمام حدیں عبورکیںاور ریاست کے سامنے آکھڑی ہوئی اور یہاں بھی پی ٹی آئی ریاست کے سامنے کھڑی ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔ تازہ افسوس ناک واقعہ آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے مظاہرے کا ہے ملک اس وقت قرضوں کی دلدل میں نکوں نک دھنسا ہوا ہے بس نتھنے اس غلیظ کیچڑ سے باہر ہیں اور ہم سانس لے رہے ہیںہماری شاہ خرچیوں ، غلط پالیسیویں اور قرض لے کر قرض چکانے والی پالیسی نے ہمیں یہ دن دکھانے تھے سو دکھا دیئے ہمیں مجبوری میں ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑ رہے ہیں کہ اس کے سواراستہ نہیں تو اس راستے پر پی ٹی آئی ناگ بن بیٹھی ہے ، پہلے آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط کہ قرض کو انتخابات کی تحقیقات سے مشروط کریں او ر پھر آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے شہباز گل کی قیادت میں مظاہرہ ، اداروں کے خلاف نعرے بازی،آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ وکیلوں میں پھنسی پی ٹی آئی کے گوہر نایاب بیرسٹر گوہر علی خان فرماتے ہیں آئی ایم ایف کے سامنے مظاہرہ پی ٹی آئی نے نہیں کروایا دوسری جانب اڈیالہ جیل میں ان کے کپتان نہ صرف مظاہرے کی ذمہ داری کو کریڈٹ قرار دیتے ہوئے قبول کرتے ہیںبلکہ اسے درست بھی کہتے ہیں جیل میں لگی عدالت میں پیشی کے موقع پرعمران خان نے صحافیوں سے بات چیت میں اگر مگر کے بغیر کہاکہ فوج مخالف نعروں کا توعلم نہیں لیکن احتجاج درست تھا۔اب یہاں گوہر علی خان کو درست مانا جائے یا عمران خان کو ؟ قیادت سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی اب بھان متی کا کنبہ بن چکی ہے ،جس کے منہ میں جو آئے کہہ رہا ہے ، سنی اتحاد کونسل سے اتحاد پر بھی سب اپنا اپنا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔بیرسٹر علی ظفر کہہ رہے ہیں غلطی ہو گئی ،عمران خان نے تو ایسا نہیں کہا تھا نجانے یہ کیسے ہوگیا ان کے اس بیان نے پی ٹی آئی کی سیاست پر ہی سوال کھڑے کر دیئے ہیں کہ پارٹی میں فیصلہ سازی کی قوت کس کے پاس ہے ملک کے خلاف جانے والے فیصلوں کا بوجھ کون اٹھائے گا؟