تدریس کے شعبے سے وابستگی کے بہت سے فوائد ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی دفتر،محکمے یا ادارے میں چلے جائیں، وہاں عموماًکوئی نہ کوئی برخوردار مل جاتا ہے۔ مجھے سیالکوٹ، کمالیہ، شیخوپورہ اور لاہور (جہاں جہاں مَیں نے تدریسی وقت گزارا) سے اب بھی جا بہ جا حسنِ سلوک کی مہک آتی ہے۔ میرا مشاہدہ بلکہ تجربہ ہے کہ اگر آپ ذمہ دار، مخلص یا کم از کم قابلِ قبول استاد رہے ہیں تو دیرینہ سے دیرینہ طالب علم نہ صرف آپ کو پہچاننے میں دیر نہیں کرتا بلکہ خدمت میں بھی مسلم کمرشل بنک سے زیادہ پیش پیش ہوتا ہے۔ لاہور ایئرپورٹ میں بھی بورڈنگ والے کاؤنٹر پہ پہنچتے ہی کامران نامی نوجوان ممنونیت بھری شناسائی کے ساتھ ہماری طرف بڑھا۔ علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ چند سال قبل وہ ایف سی میں ہمارا طالب علم تھا، اب ایف آئی اے میں ہے اور ان دنوں لاہور ایئرپورٹ پہ حاجیوں کی سہولت کاری پہ تعینات ہے۔ ساتھ ہی بتایا کہ وہ ایف سی میں میرے بیٹے کا کلاس فیلو بھی رہا ہے۔ بہرحال اس نے ابتدائی لاؤنج سے مختلف راہ داریوں ، رکاوٹوں کو آسان یا رواں بناتے ہوئے، ہمارے حصے کے لوازمات (پانی، لنچ بکس، جوس، چھتری ، ایئرلائن کے مونو گرام والابیگ وغیرہ) دلواتے ہوئے ہمیں پلک جھپکتے میں انتہائی لاؤنج یعنی جہازی پلیٹ فارم تک پہنچا دیا، جہاں چھوٹے بڑے جہاز سمندری پرندوں کی مانند کھڑے تھے۔ دوپہر کا وقت ہو چلا تھا۔ سفر اور بالخصوص حج کی مسافرت کے پیشِ نظر ظہر اور عصر کی کسر نمازیں ادا کیں، پلیٹ فارم پر وضو اور نماز کا صاف ستھرا انتظام موجود تھا۔ نماز سے فراغت کے بعد ہلکی پھلکی بھوک والا سوال حل کرنے کیلئے ایئر لائن والوں کا عنایت کردہ نئی نسل والی سفری خوراک (نگٹس، چکن بریڈ، جوس وغیرہ) والا ڈبہ کھول کے ابھی پرانی نسل کی طرح منھ بھی نہیں بنایا تھا کہ بنچ کی دوسری طرف سے باجی زاہدہ نے اچار اور دیسی گھی والے پراٹھوں کی اشتہا انگیز پیشکش کر دی ۔ صبح اگرچہ گھر سے پراٹھے ہی کا ناشتہ کر کے نکلے تھے لیکن وہ جاٹ اور پینڈو ہی کیا جس کا پراٹھے سے جی بھر جائے۔ طلحہ بیٹے کی لائی ہوئی کڑک چائے نے کھانے پہ آخری مہر بھی ثبت کر دی۔ لاہور ایئرپورٹ پہ تیزی سے مکمل ہوتے اپنے منی گروپ پہ نظر کی تو بے اختیار یہ الفاظ منھ سے نکلے: ایئرپورٹ پہ جاٹ ہی جاٹ گن کے دیکھا پورے آٹھ جب ہمیں فلائٹ سے پانچ گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچنے کا نادر شاہی بلاوا آیا تو بہت برا لگا تھا کہ اتنی دیر ہم وہاں کیا کریں گے اور وقت کے اس قدر ضیاع کی بھلا کیا تُک ہے؟ لیکن یہاں آ کے پتہ چلا کہ 274 لوگوں اور وہ بھی پاکستانیوں کو ایک جگہ جمع کرنا کتنا دشوار ہے۔ ہماری مدینہ منورہ والی پرواز سے قبل پی آئی اے اور سرینے کی دو پروازیں جدہ کے لیے روانہ ہونا تھیں، جن کے اعلانات وقفے وقفے سے جاری تھے۔ شروع کے اعلانات میں خاتون کا لہجہ ایئر ہوسٹسوں والا یعنی مہذب اور التجائیہ تھا۔ دو تین اعلانات کے بعد اس میں تحکم اور تنبیہ کا عنصر شامل ہو گیا۔ آخر آخر میں تو وہ خاتون کسی پرائمری سکول کی ٹیچر والا لہجہ اختیار کر چکی تھی، جس میں سرزنش، سختی، بے زاری، مذمت اور تھوڑا بہت ڈانٹ والا انداز بھی شامل ہو چکا تھا لیکن بعض لوگ تھے کہ آخری لمحے تک غزل کے مقطعے کی صورت ورود کرتے رہے اور ہم جیسے کاہلے (جلد باز) لوگ ہمیشہ کی طرح دوسروں کی کاہلی (سستی)کا خمیازہ بھگتتے رہے۔جب بھی کسی بات پہ طبیعت جِز بِز ہونے لگتی یاد آ جاتا کہ حج تو نام ہی صبر اور برداشت کا ہے، چنانچہ سوچا کہ ہر معاملے میں در گزر کرنے کی یہیں سے عادت ڈالی جائے۔ درگزر تو ویسے بھی ایسی خدائی صفت ہے کہ جس کی آڑ لے کر احمد ندیم قاسمی نے فرشتوں کو تنبیہ کی تھی کہ: درگزر کرنے کی عادت سیکھو اے فرشتو! بشریت سیکھو حج… دو حروف پر مشتمل لفظ ہے۔ میرے نزدیک ’ح‘ سے مراد حلال یعنی طیب، یہ بہت ضروری ہے کہ حج کا ارادہ کرنے سے پیشتر انسان رزق اور دیگر دنیاوی معاملات میں پاکیزہ اور حلال اشیا کی ترجیحات و ترغیبات کا فیصلہ کر لے۔ اسی طرح ’ج‘ سے جمال مراد لے لیا جائے کہ اللہ جو خود جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، آپ اس کے حضور تن من دھن کے ساتھ حاضر ہونے سے قبل نہ صرف زندگی میںاچھائیوں کے فروغ کا فیصلہ کر لیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں میں کیڑے نکالنے کی بجائے ان کی خوبیوں پہ نظر کرنا شروع کر دیں، زندگی آسان اور خوبصورت ہوتی چلی جائے گی۔ ایک بات ہمیشہ دیکھنے میں آئی ہے کہ ہمارے ہاں خوبصورتی صرف ظاہر یعنی چہروں، لباس، گاڑی اور گھر وغیرہ میں تلاش کی جاتی ہے حالانکہ اصل خوبصورتی گفتار، کردار، چال ڈھال، اعمال، لہجے، برتاؤ، سبھاؤ، سلجھاؤ، اٹھنے بیٹھے اور اخلاقیات کی ہوتی ہے۔ سعودی گزٹ رپورٹ مکہ میں لکھا ہے کہ حج کا مطلب ہے وقتی طور پر ہر چیز سے ناطہ توڑ لینا، سب کچھ پسِ پُشت ڈال دینا، یعنی دولت کا حصول، دفتری ذمہ داریاں، کاروبار کی فکر، دنیاوی مفادات، رشتے داریوں کے معاملات، جائیداد کے خرخشے، سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اللہ کے ساتھ وقت گزارنے کا نام حج ہے۔ یہ دین کا وہ پانچواں رکن ہے، جس کی ادائیگی رزقِ حلال والی مالی فراخی کے ساتھ وابستہ ہے، اور جس کا ایک واضح مقصد اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا عملی طور پر شکر ادا کرنا بھی ہے۔ آپ جتنے بھی مال دار ہوں، یہ زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے ۔ دوبارہ کرنے پر پابندی نہیں لیکن وہ نفلی عبادت شمار ہوگی اور یاد رہے کہ آپ حاجیوں کی روز افزوں تعداد میں اضافے کا سبب بھی بنیں گے۔ ہمارے نبیﷺ نے بھی چونکہ زندگی میں ایک ہی حج کیا تھا، اس لیے میرے نزدیک ایک حج ہی افضل ہے۔ اگر خدا نے مزید توفیق دی ہے تو اس دولت سے کوئی اور نیکی یا صدقۂ جاریہ کا کام کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا حج کا یہ سفر صرف دو ہفتے کا تھا، پرواز کی پہلی منزل بھی مدینہ تھی۔ اُردو، فارسی شاعری میں دوہفتہ کا مفہوم سب جانتے ہیں،یہاں خوبصورت محبوب کیلئے مہِ دو ہفتہ یا مہِ کامل کی ترکیب استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب چودھویں کا چاند ہے۔ ہم کہ جن کے قدم، جن کی آنکھیں، جن کے احساسات، اس دھرتی کا لمس حاصل کرنے جا رہے تھے، جہاں چودہ سو چوالیس سال قبل عرب کا روشن چاند اِس ادا سے اُترا تھا کہ دنیائے دانش و بینش کی آنکھیں چندھیا گئیں، تاریکیاں ، وہاں سے دُم دبا کر بھاگ گئیں۔ اپنے ہاں برپا سیاسی بدتمیزی کو چھوڑ کے پاک فضا کی جانب رجوع کرنے کو شاعر نے یوں اشعار کا جامہ پہنایا تھا: تمنائے حصولِ اقتدارِ شخصی و ذاتی ابھی تک ہے بشر کو اِک نرالا ناچ نچواتی بگولے نفسی نفسی کے مسلسل رقص فرماتے ابھی اپنے شِکم کی بھٹیاں پھرتے ہیں گرماتے مدینے تک پہنچ جاؤ تو پھر راحت ہی راحت ہے یہ دنیا ایک صحرا ہے، مدینہ باغِ جنت ہے (جاری ہے)