مرزا غالب نے تو اپنے دنیاوی محبوب کے در پر جانے کے لئے اس وارفتگی و جنون کا اظہار کیا تھا کہ: خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا کہ اس کے در پہ پہنچے ہیں نامہ بر سے ہم آگے لیکن ہمارا سفر تو اس محبوب کا، اس علاقے‘ اس سرزمین‘ اس ہستی کے نقوش پائے استقام کی جانب تھا‘ جس کی تعریف خود خدائے بزرگ و برتر نے کر رکھی ہے اور جس کے ذکر کو بلند کرنے کا عندیہ آج ایک ناقابل تردیدحقیقت کی صورت پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور یقین کامل ہے کہ قیامت تک اس ہستی کی نیک نامی اور اعلیٰ ترین کردار کی تابانی سے عالم کائنات فروزاں رہے گی۔انسانی قلم کی کیا مجال کہ اس ہادی برحق کی ستائش کا حق ادا کر سکے۔اسلم کولسری نے سچ کہا تھا: یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضورؐ کی ثنا تو پھر حضورؐ کی ثنا ہوئی دانائے راز جسے دنیا بھر کی تہذیبوں سے شناسائی تھی۔مشرق و مغرب کے علوم کا مطالعہ تھا۔تاریخ ‘ نفسیات اور ہندوستانی سماج پہ گہری نظر تھی۔انہوں نے امت مسلمہ کے زوال کے اسباب پہ غور وخوض کرنے کے بعد قوم کو مشورہ دیا تھا: قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں عشق محمد سے اجالا کر دے ساتھ ہی اس ہستی سے سچی‘ بے ریا اور دلی محبت کے روشن نتائج سے بھی سب کو آگاہ کر دیا: چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان رفعنالک ذکر ک دیکھے ہم نے کبھی اس امر پہ غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ایک متکبر و بت پرست معاشرے میں جنم لینے والے اس یتیم بچے کے افعال و کردار میں کیا طلسم تھا کہ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے رکھتے وہ صادق اور امین کی صفات سے ملقب ہو چکے تھے۔لوگوں کے دلوں میں بتوں سے گریز کے باوجود وہ کون سے اوصاف تھے‘ جن کی بنا پر جملہ خونخوار و خوں ریز سرداران قریش‘ حجر اسود کی تنصیب کے معاملے میں آپﷺ کی ذات پر ایمان لے آئے۔برتائو اور سبھائو میں کون سی وضع داری تھی جس نے ایک مالدار خاتون کو رشتہ ازدواج میں بندھنے پر مجبور کیا۔عزم و ہمت کا وہ کون سا جادہ تھا کہ اس پر گامزن ہوئے تو قریش کی سرداری اور من پسند خاتون سے شادی کی ترغیب بھی متزلزل نہ کر سکی۔اخلاقیات کا وہ کون سا درجہ تھا کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے والے سر پھروں کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر بیٹی کے ماتھے پر خلوص و محبت و تکریم سے مزین بوسہ ثبت کرتے ہیں۔راقم کی نعت کا ایک شعر ہے: میرے ہونٹ سعادت لکھنے لگتے ہیں جب بیٹی کا ماتھا چومنے لگتا ہوں یہ وہی پرسعادت ہونٹ تھے جو کوڑا پھینکنے‘ پتھر مارنے لہولہان کرنے‘ معاشی مقاطعہ کرنے پر بھی بددعا کی طرف مائل نہیں ہوتے۔وہ کون سا جذبہ تھا جس کے تحت راتوں رات عزیز تر آبائی شہر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔وہ کون سی تربیت تھی کہ صحرائوں میں اونٹ اور بھیڑیں چرانے والے بدو‘ قیصر و کسریٰ سے ٹکر لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔وہ کون سی بصیرت تھی جس کی روشنی ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی نہ صرف صحرائے عرب کو مہکائے اور چمکائے ہوئے بلکہ دنیا بھر کی بصارت کو چندھیائے ہوئے ہے۔ بیس برس قبل حرمین شریفین میں گزارے چونتیس دن آج بھی میری زندگی کا حاصل ہیں۔اس دورانیے نے میری زندگی کے طور اطوار بدل کے رکھ دیے۔آپؐ کی سیرت پہ چلنے کی ٹوٹی پھوٹی کاوش کی تو زندگی کے تمام امور سلجھتے سنورتے چلے گئے۔اس عمرے کو حج میں بدلنے کی متعدد بار کوشش کی مگر ہر بار دنیاوی معاملات آڑے آ جاتے۔اب کے برس بلاوا بڑی دھوم دھام سے آیا کہ جملہ امور سلجھتے چلے گئے حتیٰ کہ موجودہ حکومت کی عام آدمی کے وسائل کو جھلسا دینے والی روز افزوں مہنگائی کی آگ بھی سدِ راہ نہ بن سکی اور بغیر کسی دنیاوی احسان مندی کے وی آئی پی حج کا انتظام ہو گیا۔ انیس جون اس مقدس سرزمین کی طرف کشاں کشاں حاضر ہونے کا دن مقرر ہوا۔بجٹ ٹریننگ‘ ویکسی نیشن‘ ویزہ‘ ٹکٹ‘ ملازمت ادبی اور سماجی مصروفیات‘ خانگی معاملات کچھ بھی حائل نہ ہو سکا کیفیت وہی تھی: انؐ سے ملنے چلے تو دل اپنا ہم سے پہلے روانہ ہو گیا ہے ویسے بھی وطن عزیز میں سیاسی ‘ سماجی گھٹن اتنی بڑھ چکی تھی کہ لوگ لُو کی دعا مانگنے لگ گئے تھے ۔جھوٹ ہر جگہ دھویں کی مانند بھرا تھا کہ سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔منافقت کے حوصلے اتنے بڑھ چکے تھے کہ اخلاص و مروت منھ چھپائے پھرتے تھے۔ہر دکان پہ کھوٹا سکہ ایسے چلنے لگا تھا کہ کھرا تو جیسے ناپید ہی ہو گیا تھا۔سچ کا گلا اتنے زور سے گھونٹا گیا تھا کہ اس کی آنکھیں تاڑے لگ چکی تھیں۔شاید ماضی کے کسی ایسے ہی ماحول میں شاعر مشرق نے فریاد کی تھی کہ: تو اے مولائے یثربؐ آپ میری چارہ سازی کر جمہوریت کی مسند پہ جمورے‘ پتھلہ مارے بیٹھے تھے۔تفریح و تعمیر کے نام پہ چلنے والے سارے چینل گونگے کا گڑ کھائے بیٹھے تھے۔ بعض کا تو سچ روکتے روکتے یہ حال تھا کہ ڈیلے باہر آنے کو تھے۔شدید جنگ میں جانی دشمنوں کی خواتین اور بچوں کی حفاظت کرنیوالے دین کے نام لیوائوں کے ہاتھ اپنوں کے تقدس کے درپے تھے۔ایسے میں اس دیس سے بلاوا کہ جہاں سچ کی فصل اتنے خلوص سے کاشت کی گئی تھی کہ جھوٹ دم دبائے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔مساوات کا یہ عالم کہ ایک حبشی غلام ایک اعلیٰ نصب قریشی کے شانے سے شانہ ملائے کھڑا ہے۔ایک انصار‘ دوسرے مہاجر کو جائیداد میں حصہ دینے کو تیار ہے‘ میرے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔بلاوا بھی ایسا کہ جو سیاسی و فضائی آلودگی والے شہر سے براہ راست پوتر مدینہ کی جانب سے تھا جہاں سے نمو پانے والی سادگی اور خلوص نے دنیا کی آنکھیں خیرہ کر دی تھیں۔جہاں کے نہتے چرواہے قوت ایمانی کے بل بوتے پر بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے پر تیار ہو گئے تھے۔ تاسف اس بات پہ تھا کہ ہم بظاہر اسی ہستی کے ماننے والے ہیں‘ جس کی ایک ایک ادا پہ آج جدید تجربہ گاہیں صاد کیے بیٹھی ہیں‘ جس کے سادہ غذا‘ بھوک رکھ کر کھانے ‘ جھاڑ کے جوتا پہننے، کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے‘ قیلولہ کرنے، داڑھی رکھنے‘ وضو کرنے‘ روزے رکھنے جیسے اعمال و احکامات کے طبی‘ نفسیاتی ، سماجی پہلوئوں پہ غور ہو رہا ہے۔انہی کے تربیت یافتہ صحابیؓ کے وضع کردہ نظام کی جھلک آج کی ترقی یافتہ اقوام کے زندگیوں اور دستور میں دیکھی جا سکتی ہے۔چنانچہ ہم نے اس بلاوے کو تسلی‘ تشفی‘ اشک شوئی‘ شنوائی‘ رسائی سمجھتے ہوئے‘ اپنے چاروں جانب پھیلی دنیا داری کو اس کے منھ پر مارا۔گھر ‘ گاڑی اور اختیارات کی چابیاں بچوں کے حوالے کیں‘ احتیاطاً ایک وصیت نامہ بھی لکھا اور لبیک الھم لبیک کا ورد کرتے شہر ملازمت سے شہر ملائمت کی طرف دوڑ لگا دی۔ (جاری)