’سیاستِ مدینہ سے ریاستِ مدینہ کو روانگی لَبَّیکَ اَللّھُم لَبَّیکَ، لَبَّیکَ لَاشَرِیکَ لَکَ لَبَّیکَ، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمَۃَ لَکَ وَالمُلکَ، لَا شَرِیکَ لَکَ۔ اے قادرِ مطلق!، اے جاری و ساری حقیقت!، اے بندوں، قوموں، ملکوں، زمانوں کی تقدیر بدلنے والے! مَیں تیری اس وسیع و عریض کائنات کے ایک مشکوک سے ٹکڑے کہ جسے چھہتر سال قبل، کہنے کو تو تیرے نام پہ حاصل کیا گیاتھا، اور جس میں لوگوں کو سرحدوں سے دائیں بائیں کرنے کی ذرا سی بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری سے لاکھوں لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ عزتیں، وہ بھی عام لوگوں کی عزتیں تو یہاں کسی شمار قطار ہی میں نہیں۔ اُسی بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری کا کھیل یہاں آج تک جاری ہے۔ دولت اور کسی دنیاوی عہدے کی بنا پر بڑے بنے بیٹھے لوگ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ان کے دورِ اقتدار و اختیار میں رعایا کی لٹی عزت سے ان کی اپنی عزت بھی خاک میں مل چکی ہے لیکن جس خطۂ زمین پر عام آدمی کو انصاف، تعلیم، صحت اور رزق، بھیک کے طور پر بھی نہ ملتے ہوں، وہاں عزت کیا بیچتی ہے؟ اے سمیع و بصیر!ابھی اس کے قیام کی رُبع صدی بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ چند مکروہ اناؤں کے ٹکراؤ سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ دنیا کی وہ ریاستیں جنھوں نے ترقی اور آزادی کا سفر ہمارے ساتھ یا ہمارے بعد شروع کیا تھا، وہ ہم سے اتنا آگے نکل چکی ہیں کہ ان کے قدموں کی دھُول بھی نظروں سے اوجھل ہوئی جاتی ہے۔ اب جب کہ وقار، کردار، امن و عدل میں ہم پہلے ہی پِچھڑ چکے ہیں، غیرت و حمیت کی سانسیں اُکھڑ چکی ہیں، معیشت وینٹی لینٹر پہ دھری ہے، مکروہ انائیں جو انسانیت کا خون پی پی کے پہلے سے بھی توانا اور خوفناک ہو چکی ہیں، ایک بار پھر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ باری تعالیٰ! یہ تیرے نام پہ بسائی گئی بستی ہے، یہاں تیرے دین کے مکمل نفاذ کو عمل میں آنا تھا لیکن یہاں تو دین فروغ ہی دین فروش بنے بیٹھے ہیں۔ اس یثرب کو مدینہ بنانا ہماری ذمہ داری تھی لیکن یہاں تو پَون صدی سے ہمارے انصار نے مہاجرین کو دل سے قبول ہی نہیں کیا، کیوںکہ یہاں عبداللہ بن ابی بہت ہیں، چھوٹے بڑے ابو جہلوں کی منڈی لگی ہے۔ ہر طرف مکاری کی ڈیرے داری ہے، مکر و فریب ہر چوراہے پہ دانت نکوسے کھڑے ہیں۔ مواخات کا پرچار اور ایثار کرنے والی صدیقائیں کم اور کلیجہ چبانے والی ہندائیں بے شمار ہیں۔ یہاں معاہدے توڑنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کی رِیت قائم نہیں ہو سکی۔ مل بیٹھ کے اور اپنے پلّے سے کھانے کا جذبہ بیدار نہیں ہو سکا۔اس خِطۂ زمین جسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے، اس کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ رکھا گیا تھا، یہاں سے اسلام اور جمہوریت کی روح پرواز کر چکی ہے، یہاں دھوکہ منڈی اور رنڈی رونے کا نام سیاست ہے۔ دنیا کے سامنے کاسہ دراز کرنے کی خاطر اپنے من مرضی کے طرزِ حکمرانی کا نام ہم نے جمہوریت رکھ لیا۔ یہاں ہر طرفجھوٹ، سچ کی چھاتی پہ پاؤں رکھے کھڑا ہے۔ یہاں کا کوئی بھی ٹی وی چَینل کھولیں تو وہ کپڑوں سے داغ نکالنے اور ناپسندیدہ بالوں سے چھٹکارے کی تراکیب سے کنوں کن بھرا ہوا ہے۔ سکرین پر چائے، مٹی، پسینے اور سالن کے پختہ اور بدبودار داغ لمحوں میں غائب ہوتے سرِ عام دکھائے جاتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہماری اصلی زندگیوں میں وہ نسخہ، وہ ٹوٹکا، وہ ترکیب، وہ منتر، وہ ہنر استعمال کرنے والا جادوگرکب آئے گا جو ناپسندیدہ لوگوں اور ان کے داغ دار کرداروں سے ہماری خلاصی کرائے گا۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ یہ کردار کے داغ ایسے ہوتے ہیں کہ جو کسی بَڑھیا سرف کے نہیں اعلیٰ ظرف کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ یہاں سیکڑوں لوگ ایسے ہیں جن کی جمع پونجی یا طمع پونجی سے ملک کا سارا قرضہ اُتر سکتا ہے لیکن ان کے عزائم تو ابھی ہل من مزید کی چغلی کھاتے ہیں۔ آج اگر اِس دھرتی کا خواب دیکھنے والا شاعر آ کے اپنے نظریہ کو ’ذریعہ‘ بنتے اور بانیِ پاکستان کام، کام، کام، کو دام، دام، دام، میں تبدیل ہوا دیکھ لیں تو سر پِیٹ لیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جب کبھی اس دیس کے حالات ذرا سنبھلنے لگتے ہیں، چاروں جانب عزت عزت سی محسوس ہونے لگتی ہے تو کوئی اَن دیکھا عفریت شدید جھٹکے کے ساتھ اسے پھر سے آخری صف سے بھی پیچھے پہنچا دیتا ہے۔ یا اللہ!آج کل ہمارے یہاں ہر طرف تکریمِ شہادت کی دھوم ہے، تقسیمِ ملک کے وقت ہونے والی دس لاکھ کی شہادتوں کی تکریم نہ جانے کب ہوگی؟ ہماری آنکھیں ، ہمارے کان، ہمارے کیمرے اتنے تیز ہو گئے ہیں کہ ہم نے مطلوبہ مجرموں کو کونوں کھدروں سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ جانے اس تجسس، جستجو، لگن، جذبے اور پھُرتی کو جناح،لیاقت علی، فاطمہ جناح، بھٹو، ضیا،بے نظیر سمیت ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قاتلوں اور ملک لُوٹنے والوں کا سراغ لگانے کا ہنر کب آئے گا؟ اس وقت ہمارے چاروں جانب ایک ہی محلے کی آوازیں ہیں، سیانے کہتے ہیں کہ یک طرفہ مؤقف تو جھوٹ کا بڑا بھائی ہوتا ہے۔ کسی دانشور نے سچ کہا ہے کہ ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گدھے پر سواری کے بھی لائق نہیں ہوتے اور ہم انھیں ذہن پہ سوار کر لیتے ہیں کیونکہ انھیں ہمارے اوپر سوار کرا دیا گیا ہوتا ہے۔ بدمزگی کی بات یہ کہ ہم یہ کام کئی دہائیوں سے انجام دیے چلے آ رہے ہیں۔اب سنا ہے ایک نئی پارٹی وجود میں آئی یا لائی گئی ہے، جس کا نام ’استحکام پارٹی‘ رکھا گیا۔ لوگ بتا رہے ہیں کہ ان میں تقریباً وہی لوگ شامل ہیں، جنھیں دنیا بھر میں بکھرے سرمائے کو بچانے اور بڑھانے کی فکر ہے۔ بعض منھ پھٹ تو کہتے ہیں کہ ان کا پورے پاکستان سے سوائے استحصال کے کو ئی تعلق نہیں۔ اے رحیم و کریم! یہ خاکسار اس وقت اپنی اسی برائے نام ’ریاستِ مدینہ‘ سے آپ کے اصلی، مثالی اور مقدس مدینے کی طرف رواں دواں ہے۔ ان دنوں ہمارے سوشل میڈیا پہ مفتی تقی عثمانی کے اس خط کی دھوم ہے: ’’گیارہ لاکھ فوج کا سربراہ ایک حافظِ قرآن ہے اور گیارہ پارٹیوں کا سربراہ ایک عالمِ دین ہے۔ اب شرعی نظام نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں، حتیٰ کہ اب تو اپوزیشن بھی نہیں، کھلا میدان ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ جمعیتِ علمائے اسلام کی قیادت اس مسئلے پر اپنا حقیقی سیاسی و دینی کردار ادا کر کے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوگی اور پاکستان کو اصل معنوں میں شریعتِ محمدیﷺ کا تحفہ دے کر تمام فتنوں کا سر کچل دے گی۔ اب ان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دیگر علما کرام کو بھی اپنا اصل کام یعنی دینِ اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق دے، آمین‘‘ یا اللہ! اس وقت آپ سے ایک ہی دعا ہے کہ ان کو ہدایت دے دے، ایمان دے دے، سمجھ دے دے اور اگر معاملہ لاعلاج کے دائرے میں داخل ہو چکا ہے تو پھر انھیں سمجھ لے!!! (جاری)