مکرمی !کہتے ہیں وہ نور جو جہالت گمراہی اور ظلم کے اندھیروں کو منور کرتا ہے قلم سے نکلتا ہے… تاریخ گواہ ہے جہاں جہاں تلوار نے سر کاٹے ہیں قلم نے دل جوڑے ہیں... معاملہ ٹوٹے دل، بے وفائی، ہرجائی کی جدائی کا ہو یا جابر حکمران کے سامنے حق کی صدا بلند کرنے کا مظلوم کی آس اور امید قلم ہی بنا ہے یہ اعزاز بھی قلم کو حاصل ہے کہ جہاں اس نے امید کے گلستاں سجائے ہیں وہیں وقت کے یزیدوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ کیفر کردار تک پہنچایا ہے... مگر مٹھی بھر چاپلوسوں اور خود پرستوں نے جب سے قلم کو جھوٹ لکھنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے لکھائی سے خلوص لفظوں سے سچائی اور جملوں سے چاشنی چھن سی گئی ہے.. یہی وجہ ہے کہ ہم پچھلے ستر سالوں میں کوئی غالب میر اقبال فیض مشتاق یوسفی منٹو اشفاق احمد بانو قدسیہ احمد فراز پیدا نہیں کر پائے.. اور افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ اب انکے پڑھنے والے بھی چند سالوں میں ختم ہو جائیں گے.. اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آج قلم میں طاقت نہیں ہے بس لکھاری میں وہ جذبات ماند پڑھ گئے جودلوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے تھے کلمہ حق کی سر بلندی کا درس دیتے تھے ہیں آج کا لکھنے والا اپنے محسوسات لفظوں میں ڈھال کر پیش کرنے کی سعی تو کرتا ہے مگر اسکا قلم اصلاح معاشرہ علم کی ترویج اور ادب کی ترسیل کو پہلے کی طرح فروغ نہیں دے پاتا... شاید اسکی ایک وجہ لکھاری کی لفظوں کو ذاتی مقاصد کے استعمال کی کوشش بھی ہے کیونکہ آج ہم شعور کی بیداری کے لیے کم اور خود کی اشتہاری کے لیے زیادہ لکھتے ہیں.. ہم لفظوں کا استعمال لوگوں کی سوچ بدلنے کے لیے کم اور اپنی زندگی بدلنے کے لیے زیادہ کرتے ہیں.. ہمارا مقصد آگاہی نہیں ہے صرف اپنے لفظوں سے دلوں پہ راج کرنا اور مادی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے... جبھی ہمارے پاس ناولز ہیں شاعرہیں مگرادب نہیں رہا ادیب نہیں رہے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن )