تجزیہ:سیدانورمحمود پاکستان میں کورونا مریضوں کی نعداد 5لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے جبکہ ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔متاثرین کی نصف تعداد کا تعلق کراچی سے ہے ۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے کراچی اور حیدرآباد کے مخصوص علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کا حکم دیا ہے جو کہ بہترین اقدام ہے ۔ کراچی میں کورونا کے مثبت کیسز کی تعداد ریکارڈ سطح پر ہے اور انہیں روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے ۔اب حیدر آباد میں ریکارڈ 25فیصد پازیٹوکیسز ہیں۔ سندھ میں مثبت کیسز کی شرح تقریباً 10 فیصد ہے جبکہ قومی سطح پر یہ شرح تقریباً 6.5فیصد ہے ۔ کوئی توقع کر سکتا ہے کہ اس صوبے میں حکمران پارٹی مشکلات کا شکار لوگوں کیلئے مزید حساسیت کا مظاہرہ کرے ۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ پارٹی چیئرمین اور سندھ کے وزیراعلیٰ دونوں کورونا سے متاثر ہوئے تاہم شکر ہے دونوں صحت یاب ہو چکے ہیں۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں آج سیاست احساس اور جذبات سے عاری ہے ۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پارٹی نہ صرف محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر لاڑکانہ اور نوڈیرو میں بڑی ریلیاں نکالنے پر مصر ہے بلکہ شرکت کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی دعوت دے رہی ہے ۔بیچارے عام لوگ تو وہ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوں گے ۔ ان میں سے بہت سے تو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آئیں گے تاہم بہت سارے کھانا کھانے کیلئے اور اپنی محرومیوں اور مشکلات سے چند گھنٹے کیلئے ہی سہی چھٹکارا پانے کیلئے آئیں گے ۔ پیپلز پارٹی کی عشروں تک حکومت کرنے اور لوگوں کی پارٹی سے بے لوث وفاداری کے باوجود پارٹی کے گڑھ میں لوگ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور غیرانسانی ماحول میں رہ رہے ہیں۔میں نے یہ سب صرف اس لئے کہا تاکہ قارئین کو یہ حقیقت سمجھا سکوں کہ اس وقت وبا جس طرح پھیل رہی ہے بالخصوص سندھ میں، پارٹی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ان ہزاروں غریب لوگوں کیساتھ کیا ہو گا جب وہ واپس گھر جائیں گے ، بہت سارے افراد یہ وائرس اپنی فیملی اپنے بچوں تک منتقل کریں گے ۔ لیکن جب سیاست کے سینے میں دل نہ رہے جذبات سے عاری ہو جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں تو اس سے کوئی غرض نہیں کہ غریب پاکستانیوں کی قسمت کا کون مالک ہے ، ان لوگوں سمیت جو تاج کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاج کیلئے یہ سب جمہوری لبادے میں ہو رہا ہے ۔اس کھیل میں جیتنے والا سب کچھ حاصل کر لیتا ہے ۔ کیا آپ کو کبھی تجسس ہوا کہ کون منتخب اسمبلیوں سے کب اور کیوں استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرتا ہے ؟ منتخب ارکان پارلیمنٹ یہ فیصلہ نہیں کرتے بلکہ یقیناً پارٹی سربراہ کرتا ہے ، اور مسلم لیگ ن کے معاملے میں تو یہ فیصلہ پارٹی سربراہ بھی نہیں کرتا بلکہ درحقیقت ایک ڈی فیکٹو شخص نے منتخب ارکان پارلیمنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے استعفے بھیج دیں۔کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ کوئی غور و خوض نہیں کیا گیا۔ درحقیقت پی پی چیئرمین نے سارے استعفے بلاول ہاؤس میں موصول ہونے کے بعد یہ اعلان کیا کہ یہ معاملہ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں زیر بحث لایا جائیگا۔ منتخب ارکان پارلیمنٹ جو اپنی پارٹی وابستگی سے جیتے ، ان سے بھیڑ بکریوں کی طرح سلوک کیا گیا۔ کیا اور بھی کسی جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے ، بالخصوص تمام پارلیمانوں کی ماں اور جمہوری ملک میں،جس کی تقلید کرنا اور اسکے جیسا نظام بنانا ہم پسند کرتے ہیں۔یقیناً ایسا نہیں ہوتا۔ پارٹی سربراہ کی جانب سے ان لوگوں سے مشاورت کے بغیر، جنہیں مستعفی ہونے کیلئے کہا جا رہا ہے ، ایسے آمرانہ احکامات صرف ہماری جمہوریت میں دئیے جاتے ہیں۔کیوں؟ کیونکہ چند ایک کے علاوہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں جنہیں کچھ خاندان اپنے فیملی کاروبار کی طرح چلا رہے ہیں۔ اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں کس لئے بنائی جاتی ہیں۔لیکن کون پروا کرتا ہے ؟وہ نظام جو اپنے ہی منتخب لوگوں کو سانس لینے کیلئے تھوڑی سی فضا بھی نہیں دے سکتا، اس سے کروڑوں غریبوں کی صحت کی فکر اور حفاظت کی توقع نہیں کی جانی چاہئے ۔جب منتخب لوگوں کیساتھ قربانی کے بکرے جیسا سلوک ہو، تو جو انہیں منتخب کرتے ہیں ان کی مشکل سے ہی کوئی اہمیت ہو گی۔وبا تو اپنا راستہ بنائے گی اور اس کی قیمت بھی چکانا پڑے گی جبکہ جمہوریت اور عوام کے نام پر ریلیاں بھی جاری رہیں گی۔ مکرر آنکہ وزیراعظم کیوں اپنی شناخت احتسابی عمل کے حوالے سے کرا رہے ہیں جبکہ یہ خودمختار نیب کا دائرہ اختیار ہے ؟ کیوں جب وہ وضاحت دے رہے ہوتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے نہیں بلکہ دو اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف یہ مقدمات بنائے تھے ؟کیوں وہ این آر او کی تکرار روک نہیں رہے ؟اگر اپوزیشن نیب قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو اسے ترمیم پیش کرنے دیں۔ وزیراعظم صاحب اسے نیب اور عدلیہ کیلئے چھوڑ دیں، اور اپنی توانائیاں حکومت پر صرف کریں،تاکہ سب کو پتا چل جائے ۔یہ ایک آپشن ہے جس پر آپ کو افسوس نہیں ہوگا۔ تجزیہ، انور محمود