18 ذوالحجہ 10 ہجری کو ’’ غدیر خُم‘‘ کے مقام پر ، حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ ۔’’ جِس کا مَیں مولا ہُوں۔ اُس کا علی ؑ بھی مولا ہے۔ اے اللہ ! تُو اُس شخص کو، دوست رکھ ، جو علی ؑ کو دوست رکھے اور جو علی ؑ سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ ۔!‘‘۔ عربی زبان میں مولاؔ کے معنی ہیں ۔’’ آقا، سردار اور رفیق‘‘ اور مولا علی ؑ کے پیرو کار کو ’’ مولائی‘‘ ۔ کہا جاتا ہے ۔ ’’عاشقِ رسولؐ ، مصورِ پاکستان‘‘ علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنے بارے میں بتایا تھا کہ …

بغض اصحابِ ثلاثہ سے نہیں اقبالؒ کو!

دِق مگر ، اِک خارجی ؔسے آ کے مولاؔئی ہُوا!

مولا علی ؑ سے (بغاوت) خروج کرنے والوں کو ، خوارج ؔ(خارجی) کہا جاتا تھا ۔معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ کے بے شمار پیروکاروں کی طرح ، مَیں بھی مولاؔئی ہُوں۔ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان ؔ کے شہر اجمیرؔ سے تھا ، جنہوں نے ’’نائب ِ رسول ؐ فی الہند ، خواجہ غریب نواز ، حضرت مُعین اُلدّین چشتی  ؒ کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا ‘‘۔ میرے والد صاحب ’’ تحریک ِ پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان نے مجھے لڑکپن سے ہی حسینیت ؑ اور مولا علی ؑ سے متعارف کرادِیا تھا۔ 1947ء میں قیام ِ پاکستان کے بعد ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا۔ 

مَیںنے 1956ء میںمیٹرک پاس کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو لائل پور ( موجودہ فیصل آباد) کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی ۔1960 ء میں مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیا ۔1961ء میں گریجوایشن کی اورپنجابی زبان میں شاعری بھی شروع کردِی ۔ 1969ء میں مَیں لاہور شِفٹ ہوگیا۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور جاری کِیا۔ 1981ء میں لاہور میں میرے خواب میں حضرت خواجہ غریب نواز ؒ ایک لمحہ کے لئے ، میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کراُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تومیری آنکھ کُھل گئی۔ اُس کے بعد میرے لئے پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی ملکوں کی سیر کرنے کا موقع مِلا۔ 

ستمبر 1983ء میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ’’ مَیں اور میرے سرگودھوی دوست سیّد علی جعفر زیدی کہیں پیدل جا رہے ہیں کہ ’’ راستے میں ایک خشک دریا آگیا۔ زیدی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ’’میرا اور آپ کا یہی تک کا ساتھ تھا‘‘ ۔ مَیں نے خشک دریا پر قدم رکھا ۔ مٹی گیلی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ ’’یہ تو دلدل ہے ؟‘‘ ۔ مَیں گھبرا گیا میرا جسم دلدل میں دھنس رہا تھا کہ اچانک میرے مُنہ سے ’’یاعلی ؑ !‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایہ شفقت ہے !‘‘ برطانوی لیبر پارٹی کے اہم رُکن سیّد علی جعفر زیدی ، 1983ء سے اپنے اہل و عیال سمیت لندن میں کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

معزز قارئین !۔ مَیں نے راجپوتوں کی تاریخ پڑھنے کے شوق میں 1980ء سے ہندی زبان سِیکھنا شروع کی ۔ بھارت کے صوبہ ہریانہ کے قدیم شہر ’’ کورو کشیتر‘‘ میں ہزاروں سال پہلے ایک ہی داد کی اولاد کوروئوںؔ اور پانڈووئوں ؔمیں جنگِ عظیم ہُوئی جِس کا نام ہے ’’ مہا بھارت‘‘ ۔دورانِ جنگ ’’ وِشنو دیوتا‘‘ کے اوتار شری کرشن جیؔ نے پانڈو ہیرو ارجنؔ کو جو اُپدیشؔ ( خُطبہ ) دِیا وہ مُقدّس کتاب ’’گیتا ‘‘ کہلائی ۔ ارجنؔ ۔ شری کرشن جی ؔکا ۔ پھوپھی زاد ، اُن کی بہن سُبھادرا ؔ کا خاوند اور شاگرد تھا ۔ شری کرشن جیؔ نے اپنے اُپدیش ؔمیں ارجن کے لئے ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ بہت زیادہ عالم و فاضل اور بہت زیادہ بہادر اور جنگ جُو شخص کو ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ کہا جاتا ہے ۔ سرکارِ دو عالمؐ کے چچا زاد ، داماد اور شاگرد ’’ باب اُلعلم‘‘ اور ’’ اسد اللہ ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کے شیر ) کہلانے والے مولا علی ؑ جیسا ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ تاریخِ اسلام میں اور کون ہے؟۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دَور میں قومی اخبارات میں ایک خبر شائع ہُوئی کہ ’’ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مدعو کرنے کے باوجود ’’ تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی نے وزیراعظم ہائوس جا کر اُن سے ملاقات کرنے سے معذرت کرلی اور جب محترمہ اچانک اپنے وزراء کا ایک گروپ لے کر آغا جی سے ملاقات کے لئے علی مسجد پہنچیں تو ، آغا جی نے ایک وزیر سے کہا کہ ’’ مَیں خواتین سے ملاقات نہیں کرتا، محترمہ وزیراعظم مسجد سے ملحقہ میرے گھر میری اہلیہ سے ملاقات کرلیں مَیں محترمہ کے لئے مسجد میں ہی دُعا کردوں گا ‘‘۔ مَیں نے اپنے ایک سرگودھا کے صحافی برادرِ عزیز سیّد رضا کاظمی کے ذریعے آغا جی سے ملاقات کی ۔ 

2007ء میں آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی صاحب نے ’’ تحریک ِ نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ کے سیکرٹری اطلاعات سیّد قمر زیدی ، اور سیّد رضا کاظمی کے ساتھ دانشور کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کو میرے پاس بھیجا ، اِس فرمائش کے ساتھ کہ اثر چوہان صاحب ! آپ سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ ( جنّت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھ دیں !۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ کتاب میں میرے پیش لفظ کے نیچے کاظمی صاحب نے لکھا کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنّت ؔسے ہے لیکن آپ اہلِ بیت ؑ کا بہت احترام کرتے ہیں !‘‘۔20 سال کے دَوران میری آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی سے صِرف تین ملاقاتیں ہُوئی ہیں ، اِس لئے کہ میرے والد صاحب نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ’’ درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے! ‘‘۔ 

آغا جی سے میری آخری ملاقات 19 جنوری 2016ء کو ہُوئی ۔ میرے ساتھ میرا داماد معظم ریاض چودھری بھی تھا۔ وہاں سیّد قمر زیدی، سیّد عباس کاظمی ، کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی ،شہاب مہدی رضوی اور آغا جی کے دونوں قانون دان بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی رُوح العباس موسوی بھی تھے۔ آغا جی نے بتایا کہ ’’ مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے علاّمہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کی طرح قوم کی خدمت کریں!‘‘۔ آغا حامد علی شاہ موسوی کی ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘نے ۔ حکومت ِ ایران سے کبھی کوئی امداد قبول نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ کسی بھی مسلک کی مذہبی جماعت کو سیاسی جماعت کے طور پر کام نہیں کرنا چاہیے! ‘‘۔

یکم اکتوبر 2017ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کو سانحہ کربلا کے بارے میں میرا کالم شائع ہُوا تو، اُس میں ’’ جے کَربَل وِچّ ، مَیں وِی ہوندا‘‘ کے عنوان سے میری منقبت بھی شامل تھی۔ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی نے میرا کالم پڑھا تو، دوسرے دِن سیّد عباس کاظمی نے فون پر بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ قبلہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی نے اپنے تمام رفقاء کو یہ پیغام بھجوا دِیا ہے کہ آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’ حسینی راجپوت ‘‘ کہا کریں !‘‘۔ تو معزز قارئین!۔ آج کے کالم میں آپ مولا علی ؑ کے بارے میں میری منقبت کا مطلع اور دو بند پڑھ کر میرے اور میرے اہل و عیال کے لئے دُعا فرمائیں ۔یہ منقبت مَیں نے 2011ء میں کہی / لکھی تھی۔ 

نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی مولا!

جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا!

…O…

لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یَزداں دا!

سارے نعریاں توں وڈّا، نعرہ تیرے ناں دا!

تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؑ!

جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا!

…O…

سارے وَلیِاں دے ، بُلھاں اُتّے سَجدی اے!

من موہ لَیندی ، جدوں وَجدی اے!

تیری حِکمتاں دی وَنجھلی مولاؑ!

جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا!