مکرمی ! جہیز مانگنے والے یہ نہیں سوچتے کے مرد کو عورت کا محافظ اور پالنے والا بنایا ہے۔ اللہ نے مرد کو اپنی اضافی خاصیت عطا کی وہ اپنے گھر والوں کی کفالت کر سکے۔ اپنی بیوی اور بچوں کو خوش رکھ سکے،ان کے اخراجات پورے کر سکے۔عورت کو اسکا وسیلہ رزق نہیں بنایا کہ وہ اسکے ذریعے سے جہیز کی صورت مال و متاع اکٹھا کرے اور اپنا گھر بھرے۔ اس لعنت کومزید بھیانک بناتے ہیں ارد گرد کے لوگ جو کبھی عمر زیادہ کا طعنہ دیتے کبھی چھوٹے قد سانولی رنگت چھوٹی آنکھیں فربہ جسم غریب گھر ہے انہوں نے کیا دیناجیسے نقص نکال کر اللہ کے شاہکار کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے وہ بھی انسان ہے۔ انکو سمجھ ہی نہیں آتا کہ جہیز کے پلڑے میں گھر کا سکون نسلوں کی حفاظت عزتوں کی پاسداری کو نہیں تولا جا سکتا۔ اس سے صرف مکان بھرا جا سکتا وہ مکان جس کے نصیب میں گھر بننا ہے بھی کے نہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔جبکہ دوسری طرف ماں باپ بھائی جہیز نامی لعنت بیٹیوں کے ساتھ رخصت کر کے خود کو ہر معاملے سے بری الزمہ قرار دے دیتے انکو لگتا جہیز کے بعد بیٹی ہر حق سے دستبردار ہو گئی۔ جہیز کی صورت وراثت کا شرعی حق ادا ہو چکا۔ اب جائیداد میں اسکا کوئی حصہ نہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ ہم انسان جہاں جہاں قدرت کے فیصلوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں وہاں وہاں ہمیں منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ غور کریں۔ بیٹیاں نہروں میں ڈوبنے کے لیے نہیں ہیں یہ پریاں تو گھر بسانے کے لیے ہیں۔جہیز کے نام پہ باپ کو قاتل نہ بنائیں بیٹی اسکا جرم نہیں ہے اسکی زندگی ہے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن )