جموں وکشمیر کی تشکیل نوکے حوالے سے مرکزی حکومت نے جو فیصلہ کیاہے اس پر ساری دنیامیں ان دنوں بحث ہورہی ہے ،حکومت کایہ فیصلہ کچھ لوگوں کے سامنے حیران کن ہے توکچھ لوگوں کے سامنے افسوسناک ،مگرکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پٹاخے پھوڑرہے ہیں۔راقم الحروف کامانناہے کہ مکاں بدلنے سے قبل وہاں کے مکینوں کو اعتمادمیں لیناضروری تھا۔جموں وکشمیر کی تاریخ ،تہذیب اور وہاں کے مزاج کو جاننے والے جانتے ہیں کہ حکومت کے اس فیصلے سے وہاں امن وخوشحالی سے پہلے بے چینی اوربدامنی کا دورشروع ہوسکتاہے، جس کے تدارک کے لیے کیا حکومت کے پاس کو ئی منصوبہ ہے ؟جس لداخ کے ہرشہری کو کشمیری اپنا بھائی تصورکرتے تھے اس کے الگ ہونے کے بعدمذہبی تفریق کااحساس دونوں طرف کے لوگوں کو ستارہا ہے۔ اس معاہدہ شکن فیصلے نے ہزاروں دلوں کے جذبات کو بھی چکناچورکیاہے اور ایک ایسی فضابنائی ہے جس میں حرماں نصیبی ،مایوسی اورانتشارکی کیفیت ہرچہرے پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخرمرکزی حکومت جموں وکشمیرکی تشکیل نوسے کیافائدہ حاصل کرناچاہتی ہے ؟اس سوال کاجواب بھارتیہ جنتاپارٹی کے مزاج وعزائم کے بین السطورمیں پنہاں ہے اور اس کافائدہ وہ سارے دیش میںووٹوں کی مرکوزیت سے حاصل کرناچاہتی ہے۔ ظاہرہے سیاسی فائدے کی خاطر جو فیصلہ لیاگیاہے اس کے دوررس سنگین نتائج کو ابھی محسوس نہیں کیاجاسکتابس اتناسمجھ لیناکافی ہے کہ ہم نے سونے کے بدلے لوہاحاصل کیاہے۔جس جنت نشان کشمیر کو ہماری سابقہ قیادتوں نے ملک کے دھاگے سے باندھے رکھااسے موجودہ حکومت نے کٹی پتنگ کی مانند فضائوں میں چھوڑدیاہے جس کے منفی نتائج کو ہم ابھی سے ہی محسوس کرسکتے ہیں۔جموں وکشمیر اورلیہہ ولداخ کے اس پورے خطے میں ایک خاص قسم کی جوتہذیبی یکسانیت تھی اس کو پارہ پارہ کرکے ہم خیالی ترقی کا جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ جلدشرمندہ تعبیرنہیں ہونے والا۔بلا شبہ سرکارکو اس پورے خطے کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے لیکن ترقی کے نام پر اس خطہ کی تقسیم کردی گئی ہے جس کافائدہ کم اورنقصان زیادہ ہونے والاہے۔بعض تجزیہ کارتویہاں تک کہتے ہیں کہ پہلے سے ہی مسائل ومشکلات کا شکارلداخ مزید دشواریوں سے دوچارہوجائے گا کیونکہ جموں وکشمیر سے جو حمایت مل رہی تھی اس میں اب فطری طورپر کمی آئے گی۔جو افرادکارجموں وکشمیر میں ہیں ان کی خدمات محدودہوجائیں گی اورانفراسٹرکچر کے اعتبارسے بھی لداخ یتیمی کاشکارہوجائے گا ،اسے باضابطہ خودانحصاری کی راہ پر جاتے جاتے دہائیاں لگ جائیںگی۔ جموں وکشمیرکو مرکزکے زیرانتظام کیے جانے اور وہاں کی خصوصی مراعات کو سلب کرنے کے بعد کی جو کیفیت ہے اس کااندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ ابھی توطوفان سے قبل کی خاموشی ہے مگر جلدہی کشمیرایک بارپھر شورش وکشیدگی کی راہ پر گامزن ہوسکتاہے۔حکومت نے مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کی بجائے اسے مزیدپیچیدہ بنادیاہے اور اب مسئلہ کشمیر زیادہ گنجلک اور چہارسراہوگیاہے۔چنانچہ اب مسئلہ کشمیرکوحل کرنازیادہ مشکل ہوجائے گا کیونکہ ایک سوراخ کو بندکیاجائے گا تودوسرا منہ کھولے کھڑاہوجائے گا ،جس کاصاف مطلب ہے کہ جنت نشان کشمیرکو ایک بارپھر خاک وخون میں لت پت کرنے کی تیاری ہوچکی ہے۔جو لوگ ہندوستان سے الحاق کو قابل فخر سمجھتے تھے ان کو بھی آپ نے بے دست و پا بنا دیاہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر کشمیر کے ان حالات کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ دفعہ 370 اور 35A کے تحت کشمیریو ںکی خصوصی مراعات کوختم کرنے کے بدلے مرکزی حکومت انہیں کیاکیا سہولتیں دینے کاارادہ رکھتی ہے ؟داخلی کشمکش،علیحدگی پسندی اور کشمیری نوجوانو ںکی مرکزسے نفرت کو ختم کرنے کاکیامنصوبہ ہے؟کئی دہائیو ںکی کوششوںکے بعد کشمیری نوجوانوں نے عسکریت کی راہ چھوڑکرتعلیم وترقی کی راہ اپنائی تھی ان کے اذہان کو مثبت راہ پر قائم رکھنے کے لیے حکومت نے کون کون سی اسکیمیں تیارکی ہیں ؟ ان جیسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات فی الحال حکومت کے پاس نظر نہیں آرہے ہیں۔حکومت نے جموں وکشمیر کی خصوصی مراعات کو ختم کرنے اورلداخ کو علیحدہ کرنے کی وجہ وہاں ترقی کی گنگابہانابتایاہے ،حکومت کاموقف ہے کہ لداخ کو الگ کرکے وہاں ترقیاتی کاموں کو رفتار دی جاسکتی ہے ،اسی طرح جموں وکشمیر کی خصوصی مراعات والی دفعات کو کالعدم کرکے وہاں بھی ترقیاتی رکاوٹوں کو دورکیاجاسکتاہے ،سوال یہ ہے کہ آخراب تک وہاں ترقیاتی کاموں سے کس نے روکاتھا ،یہ کون سی منطق ہے کہ وہاں پہلے شورش وبے چینی پیداکی جائے پھر اس کے بعدترقیاتی منصوبوںکوزمین پر اتاراجائے۔ مرکزی حکومت جموں وکشمیر میں جس بلیوپرنٹ پر عمل پیراہے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے ،ہمیں ڈرہے کہ پھر امن وامان کو نظر نہ لگ جائے اور ایک نئے قسم کے مسائل سے ہمیں دوچارہوناپڑے۔دفعہ 370کو ختم کرکے حکومت بقیہ ہندوستانیوں کو وادی کشمیر کے لالہ وگل سے فیضیاب کرناچاہتی ہے اورچاہتی ہے کہ بنارس کے لوگ بھی ڈل جھیل کے کنارے آبادہوجائیں لیکن ہمیں ڈرہے کہ ابھی تک توہم سیروتفریح کے لیے وہاں کے قدرتی حسن سے محظوظ ہوپاتے تھے مگراس نئے ماحول میں کہیں احتجاج کی آندھی اس قدرتیز نہ ہوجائے اورعصبیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے اتنے مہیب نہ ہوجائیں کہ ہم سیروتفریح کے لطف سے بھی محروم ہوجائیں۔کیونکہ قارئین کو یادہوگاکہ ایک طویل عرصہ ایسا گزرچکاہے کہ جب ہندوستان کے بقیہ حصوں سے لوگ چاہ کربھی وہاں نہیں جاپاتے تھے کیونکہ گن گولی اوربم وبارودکی گھن گرج میں کوئی بھی جاناپسندنہیں کرے گا۔ میں تمناکرتاہوں کہ ایسی کیفیت پھر کبھی پیدانہ ہو لیکن حکومت کو ان سب چیزوں پر پیشگی توجہ رکھنی چاہیے۔(بشکریہ سیاست ،دہلی)