کیا وحی کی رہنمائی کے بغیر مجرد عقل کے ذریعے انسانی افعال کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور کیا عقل کے اس فیصلے کی بنیاد پر آخرت میں محاسبہ ہوسکتا ہے؟ مسلمان اہلِ علم کی غالب اکثریت ان سوالات کا نفی میں جواب دیتی ہے کیونکہ یہ مفروضے تسلیم کیے جائیں تو وحی و رسالت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے اور انبیاء کی بعثت کو محض ایک اضافی فضل و احسان کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ چنانچہ فقہائے کرام ''حکم ِشرعی'' کیلئے "شارع کا خطاب" ضروری سمجھتے ہیں، گویا جو شارع کا خطاب نہیں ہے وہ حکمِ شرعی بھی نہیں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی البتہ "بدیہیاتِ فطرت" کو شریعت کا حصہ قرار دیتے ہیں: " تمام بدیہیات فطرت اللہ کے اوامر میں شامل ہیں اور اس پہلو سے وہ شریعت الٰہی کے اجزا ہیں، اگرچہ لفظوں میں خدا کی طرف سے ان کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔ مثلاً یہ کہ اگرچہ اس بات کا کہیں حکم نہیں دیا گیا ہے کہ لقمہ منہ میں ہی ڈالنا چاہیے، ناک یا آنکھ میں نہیں ڈالنا چاہیے، تاہم یہ خدا کا حکم ہے اس لیے کہ فاطر نے ہماری فطرت یہی بنائی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرے تو درحقیقت وہ خدا کے ایک واضح بلکہ واضح تر حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور اس پر وہ خدا کے ہاں سزا کا مستحق ہوگا۔ ہم نے اس کو واضح کے بجائے واضح تر اس لیے قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے معاملات کو صرف اس وجہ سے ہماری فطرت پر چھوڑ دیا ہے کہ فطرت ان کی وضاحت کی وجہ سے ان میں کسی رہنمائی کی محتاج نہیں تھی۔" جناب جاوید احمد غامدی کا تصور ان سے کچھ مختلف ہے کیونکہ وہ "بیانِ فطرت" کو "شریعت" سے الگ سمجھتے ہیں اور شریعت کو گنتی کے چند احکام تک محدود کردیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: "شریعت صرف ان امور سے بحث کرتی ہے جن میں عقل انسانی نے ٹھوکر کھائی ہے یا اس کے ٹھوکر کھانے کا امکان ہے۔ مثلاً معیشت سے متعلق سات آٹھ احکام ہیں، اسی طرح چند احکام سیاست سے متعلق ہیں، کچھ احکام معاشرت کے حوالے سے بیان کیے گئے ہیں، پانچ سات چیزیں آداب و شعائر کے بارے میں متعین کر دی گئی ہیں، حدود و تعزیرات میں صرف پانچ جرائم ہیں جن کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ باقی معاملات کو عقل انسانی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔" شریعت کا یہ تصور بہت ناقص ہے۔اس پر بحث کا ایک زاویہ یہ ہے کہ جب وحی کا نزول نہیں ہوا تھا تو اس وقت مختلف افعال کے لیے کیا حکم تھا؟ کیا ہر فعل جائز تھا؟ امام غزالی اس کی شدت سے نفی کرتے ہیں کیونکہ جواز یا اباحت حکمِ شرعی ہے اور جب شریعت نازل ہی نہیں ہوئی تھی تو کیسے کسی کام کو مباح کہا جاسکتا تھا؟ اسی طرح کسی کام کو حرام یا واجب بھی نہیں قرار دیا جاسکتا تھا۔ پس اس وقت حکم "توقف" تھا، یعنی حکمِ شرعی کے نازل ہونے تک کسی کام کو مباح، حرام یا واجب نہیں قرار دیا جاسکتا تھا۔ اب بھی جب کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو تو ابتدائی پوزیشن توقف ہی کی ہوتی ہے، پھر شرعی نصوص اور اصولوں کے جائزے کے ذریعے اس کے متعلق حکمِ شرعی معلوم کیا جاتا ہے۔ تاہم جناب غامدی چونکہ بات کو بہت سادہ بنانے کے عادی ہیں، اس لیے اجتہاد کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:"اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت جن معاملات میں خاموش ہیں ان کے بارے میں عقل و فطرت کی روشنی میں رائے قائم کی جائے۔"ان کے تصورِعقل و فطرت کی وضاحت میں ان کے شاگرد رشید جناب منظور الحسن لکھتے ہیں: "اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خیر و شر کی مبادیات کا کامل شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کو براہ راست ودیعت کررکھا تھا مگر ان کے لوازم و اطلاقات اور جزئیات و تفصیلات میں انسان کو مزید رہنمائی کی ضرورت تھی۔" یہ بات قابلِ غور ہے کہ قرآن ، جو وحی الٰہی ہے ، اس کی تفسیر اور تاویل میں تو غامدی صاحب کا مکتب فکر امت مسلمہ کے صدیوں کے فہم کو ناقابل اعتبار ٹھہرا کر نئی راہیں نکالنے کو عین جائز بلکہ اپنا حق سمجھتا ہے لیکن "قانون فطرت" نام کی چیز اگر کہیں پائی بھی جاتی ہے تو غیر مکتوب ہے لیکن اس کے باوجود یہ مکتبِ فکر کم از کم اس کے "مبادیات "کو "مسلمات" مانتا ہے ؟ نیز اگر "خیر و شر کی مبادیات کا کامل شعور" انسان کو دیا گیا ہے تو کیا ان مبادیات کی حد تک انسان کو وحی الٰہی کی ضرورت نہیں رہی؟ اور یہ خیر و شر کی مبادیات ہیں کیا ؟ غامدی صاحب اس کے جواب میں سورہ النحل کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں عدل ، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا حکم دیا گیا ہے اور فحشاء ، منکر اور بغی سے روکا گیا ہے۔ اب صرف "عدل" پر ہی یونانی فلاسفہ سے لے کر آج تک کی ڈھائی ہزار سالہ کاوش دیکھ لیں تو معلوم ہو کہ اس سب سے بنیادی اخلاقی قدر کو سمجھنے میں انسانی "عقل و فطرت "نے کتنی ٹھوکریں کھائی ہیں! منظور صاحب فرماتے ہیں کہ خیر و شر کی مبادیات کے " لوازم و اطلاقات اور جزئیات و تفصیلات میں انسان کو مزید رہنمائی کی ضرورت تھی۔"اس تصور نے عقل و فطرت کو بنیادی حیثیت دے کر اور وحی و شریعت کو محض ایک "مزید رہنمائی"قرار دے کر اس مکتبِ فکر کو امتِ مسلمہ کے عمومی موقف سے الگ کردیا ہے اور اسے "اعتزال ِ جدید" کا علم بردار بنادیا ہے۔ پھر چونکہ اچھائی ، برائی ، خیر ، شر ، مفید، غیر مفید پر کثیر اختلافات صدیوں سے موجود ہیں اور ان کا انکار بدیہیات کا انکار ہے ، اس لیے منظور صاحب کو کہنا پڑا کہ اگر فطرت کے تعین میں کسی جگہ اختلاف ہو تو "ذریت ِ ابراہیم کا رجحان" فیصلہ کن ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق یہود پر ایسی کئی چیزیں حرام کردی گئی تھیں جو ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں حرام نہیں تھیں۔ پھر مسیح علیہ السلام نے یہود کے حرام کردہ بعض کاموں اور چیزوں کو حلال کردیا تھااور آپ کے بعد سینٹ پال کے نام لیواؤں نے جب "شریعت کی حرمتوں" سے جان چھڑانے کا سلسلہ شروع کیا تو پوری شریعت کو ہی "لعنت" قرار دیا! اس لیے یہود یا نصاریٰ کے "رجحان" کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی اور آخری وحی ہی کو اصل معیار کی حیثیت حاصل ہوئی۔ یہ بات منظور صاحب بھی مانتے ہیں اور اس لیے فرماتے ہیں کہ حتمی معیار کی حیثیت آخری وحی کو حاصل ہے۔ یہ وضاحت سادگی کے علاوہ تضادپر بھی مبنی ہے کیونکہ اس طرح تو عقل و فطرت کی اساسی حیثیت ختم ہوجاتی ہے جس کے منوانے کیلئے آپ نے اتنی تگ و دو کی تھی! اس بحث کا قانونی مسائل کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ اس پر ہم اگلے کالم میں بات کریں گے، ان شاء اللہ۔