معزز قارئین!۔ پرسوں (25 اگست کو ) دُنیا بھر میں نامور پاکستانی شاعر اور دانشور جناب احمد فراز ( سیّد احمد شاہ ) کی 10 ویں برسی منائی گئی تو، مجھے علاّمہ اقبالؒ اور پنجابی کے ،ملامتی صوفی شاعر ، بابا بُلّھے شاہ القادری ؒ کی یاد آئی۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ …

مرنے والے مرتے ہیں لیکن ، فنا ہوتے نہیں!

یہ حقیقت میں کبھی ، ہم سے جُدا ، ہوتے نہیں!

بابا بُلّھے شاہ ؒ نے کہا تھا کہ …

بُلّھے شاہ ؒ ! اَساں مَرنا، ناہیں،

گور ،پَیا ، کوئی ہَور! 

25 اگست 2018ء کو جب ، وزیراعظم عمران خان کی طرف سے فرزندِ ؔاحمد فراز ، پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ، سیّد شبلی فراز کو سینٹ آف پاکستان میں قائد ایوان نامزد کرنے کی خبر آئی تو، مجھے بہت خُوشی ہُوئی اور یقینا ، جناب احمد فراز کے بے شمار عقیدت مندوں کو بھی مجھ سے زیادہ خُوشی ہوئی ہوگی ؟۔ درحقیقت ، علاّمہ اقبالؒ کی طرح ، جناب فیض احمد فیضؔ اور جناب احمد فرازؔ ، ایسے محب وطن پاکستانی شاعر اور دانشور تھے ۔جنہیں تحریک پاکستان کے مخالفین اور اُن کی باقیات ، سیاستدانوں اور قلم کاروں نے کبھی نہیں بخشا۔ ہر موقع پر اُن کی شاعری کی غلط تشریح کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ 

جنابِ احمد فرازؔ سے میری نیاز مندی تھی ۔ مَیں نے اُنہیں کئی مجلسوں میں سُنااور اُن کی گفتگو سُنی، خاص طور پر ، اسلام آباد میں ، چیئرمین ’’پاکستان کلچرل فورم‘‘ برادرِ عزیز ظفر بختاوری کی منعقدہ تقاریب اور اُن کے گھر میں مخصوص مجلسوں میں ۔ مَیں نے اسلام آباد میں اپنے گھر میں بھی منعقدہ دو مجلسوں میں جناب احمد فراز کو مدعو کِیا جن میں ( سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات) سیّد انور محمود اور انفارمیشن گروپ کے دوسرے سینئر افسران بھی مدعو تھے۔ مجھے فخر ہے کہ ’’1999ء میں جب مَیں نیویارک میں 1992 ء سے "Settle" اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لئے جا رہا تھا تو، یہ محض اتفاق تھا کہ جنابِ احمد فراز بھی ’’ پی ۔ آئی ۔ اے ‘‘ کی اُسی فلائٹ سے نیویارک میں مشاعرہ پڑھنے کے لئے جا رہے تھے ۔ اُس وقت تو ، کمال ہوگیا کہ جب ، میری درخواست پر ائیر ہوسٹس نے مجھے جنابِ احمد فراز کے ساتھ بٹھا دِیا وہ، سفر میری زندگی کا یادگار سفر تھا۔ 

جناب احمد فراز کی وفات کے بعد جب، اُن کے بعض مخالفین نے اپنی زبان اور قلم کا بے دریغ استعمال کِیا تو، مَیں نے اس وقت کے ایک روزنامہ کے 25 ستمبر 2008ء کے شمارے میں اُس کا بھرپور توڑ کِیا۔ میرے کالم کا عنوان تھا ’’ احمد فراز۔ حُسنِ کردار کا نمونہ !‘‘۔ مَیں نے لِکھا کہ ’’ مولویوں کے جس طبقہ نے علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے تھے ، وہ اب بڑے فخر سے علاّمہ اقبال ؒ کے اشعار ترنم سے پڑھتے ہیں ۔ اُن میں سے مجاہدِ اوّل سردار عبداُلقیوم نے پہلے علاّمہ اقبالؒ  کو شرابی قرار دِیا اور پھر خوف ِ فساد خلق سے معافی مانگ کر جان چھڑا لی‘‘۔ 

مَیں نے لِکھا کہ ’’ عشق ، مے خانہ ، ساقی اور جام کا تذکرہ اور سفیرانِ حرم و پیران طریقت سے چھیڑ چھاڑ ، صوفی شاعروں کا مشغلہ رہا ۔ غوث اُلاعظم حضرت شیخ عبداُلقادر جیلانی  ؒ کا ایک شعر ہے کہ …

دم آب از سگال سگ بکوئے یار نوشیدن!

مرا خوشتر بود زاں بادہ کاں در جام جم باشد!

یعنی۔ ’’ میرے عشق کی وارفتگی یہ ہے کہ کوچہ یار میں کُتے کے برتن میں پانی پینا میرے لئے جام جمشید میں شراب پینے سے بھی بھلا لگتا ہے ‘‘۔ صُوفی شاعر حافظ شیرازی نے کہا کہ …

دوش از مسجد سُوئے میخانہ آمد پیر ما!

چِیست یارانِ طریقت ، بعد ازیں تدبیر ما!

یعنی۔ ’’ کل ہمارا پیر مسجد سے میخانہ کی طرف آگیا۔ یارانِ طریقت اِس کے بعد ہماری کیا تبدیل ہے؟‘‘ ۔جناب فیض احمد فیض ؔ نے ’’یاران طریقت ‘‘ سے تدبیر ؔ ، نہیں پوچھی بلکہ اُنہیں "Guideline" دیتے ہُوئے کہا تھا کہ …

رقص ِ مَے ، تیز کرو ، ساز کی لَے تیز کرو!

سُوئے میخانہ ، سفیرانِ حرم ، آتے ہیں !

پنجابی کے صوفی شاعر اور قادریہ سلسلہ کے ولی حضرت سلطان باہو حضرت سلطان باہو ؒنے (اپنے دَور کے) قاضی صاحبان کے بارے میں فرمایا تھا کہ …

قاضی آن ، شرع دے باہُو ! 

کدیں ، عشق نماز ، نہ نیتی ہُو!

یعنی۔ ’’ شریعت کے روایتی قاضی ، نمازِ عشق سے عاری اور بے خبر ہوتے ہیں ۔‘‘ نمازِ عشق کیا ہے ؟ ۔ اُس کے بارے میں قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے والے ، علاّمہ اقبالؒ نے ہمارے ، ہر دَور کے حکمران کو بتایا تھا کہ …

قوتِ عشق سے ، ہر پست کو ، بالا کردے!

دہر میں اسمِ محمد ؐ سے اُجالا کردے!

معزز قارئین!۔ کوئی مانے یا نہ مانے جناب فیض احمد فیضؔ اور جناب احمد فراز نے قوت ِ عشق کو بنیاد بنا کر اپنی شاعری سے ہر پست کو بالا کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی ۔ مَیں حیران ہُوں کہ، تحریک پاکستان کے مخالف ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے منتخب صدر ، ابو اُلکلام آزاد ؔ، نے اورنگ زیب عالمگیر کے دَور کے ایک ننگ دھڑنگ درویش شاعر حضرت سرمدؒ  شہید کے بارے میں یہ کیسے لکھ دِیا کہ۔ظاہر پرست عُلماء نہیں جانتے کہ سرمدؔ ، اُس مینارہـ عشق پر تھا جہاں دیوار کعبہ اور مندر بالمقابل نظر آتے ہیں اور جہاں کُفر اور ایمان کے عَلم ایک ساتھ لہراتے ہیں ‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ ہوں ، جناب فیض احمد فیض ؔ یا جناب احمد فرازؔ ۔ اُن کی زندگی کھلی کتاب تھی۔ منافقت اور ریا کاری سے پاک ؟۔ آپ اُنہیں ملامتی صُوفی کہہ سکتے ہیں ۔ منصور حلاّج شہید، رابعہ بصری قلندر، کرشن مہاراج ، بھگت کبیر ، میرا بائی، شاہ حسینؒ ، بُلّھے شاہ ؒ اور سرمد شہید کی طرح اور ہاں !۔ یاد رہے کہ ’’ جناب احمد فراز نے کبھی ’’ انا اُلحق ‘‘ کا نعرہ بلند نہیں کیا۔ کلمہ بھی پورا پڑھتے تھے ۔ پیار بانٹتے تھے ۔ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے تھے ۔ سیّد ؔہونے کے باوجود عام انسان کی حیثیت سے رہے ۔ مذہب کے نام پر کوئی دکان نہیں کھولی ورنہ وہ۔ ’’برادرِ ابو الا اعلی ‘‘ تو بن ہی جاتے ۔ حُسن کردار اور کیا ہوتا ہے؟ ۔ 

جناب احمد فراز کو ، مختلف ادوار میں ، حکومتِ پاکستان کی طرف سے ’’ ستارۂ امتیاز‘‘ ۔ ’’ہلال ِ امتیاز‘‘  اور اُن کی وفات کے بعد ’’ہلالِ پاکستان ‘‘ سے نوازا گیا ۔ وفات کے بعد جنابِ احمد فراز کو اسلام آباد کے سیکٹر "H-8" کے قبرستان میں دفن کِیا گیا تھا ۔ اُن کی قبر پر نصب ’’لوح سنگ ‘‘ پر ، کندہ ، اُن کا ، یہ شعر بھی خوب ہے کہ …

مَیں کہ ، صحرائے محبت کا ، مسافر تھا فرازؔ !

ایک جھونکا تھا ، کہ خُوشبو کے سفر پر نکلا !

معزز قارئین!۔ 11 اکتوبر 2008ء کو میری اہلیہ ( پنجاب پیپلز پارٹی کی پہلی اور آخری منتخب سیکرٹری جنرل ) بیگم نجمہ اثر چوہان کا انتقال ہُوا اور اُنہیں بھی اسلام آباد کے سیکٹر " "H-8 کے قبرستان میں دفن کِیا گیا۔ میرے بزرگ دوست تحریکِ پاکستان کے نامور مجاہد ’’ فاتح سلہٹ ‘‘ حکومتِ پاکستان کے تاحیات وفاقی وزیر جناب محمود علی بھی اُسی قبرستان میں دفن ہیں ۔ مَیں جب بھی ، اپنی اہلیہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے جاتا ہُوں تو، پہلے جناب محمود علی اور جناب احمد فراز کی کی قبروں پر بھی حاضر دیتا ہوں۔ آخر میں علاّمہ اقبالؒ کا یہ شعر پیش خدمت ہے کہ …

مرنے والوں کی ، جبیں رَوشن ہے ،اِس ظُلمات میں !

جس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں!

محترم وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب ! مجھے یقین ہے کہ ’’ آپ نے 25 اگست کو ، سیّد شبلی فرازؔ کو ، سینٹ میں قائدِ ایوان نامزد کر کے ، دراصل جناب احمد فراز ؔکو خراجِ عقیدت پیش کِیا ہے ! ؟۔