ستاون خاموش اسلامی ملکوں کے مقابل ساؤتھ افریقہ القدس کے مظلوم مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے عالمی عدالت جا پہنچا ہے،ساؤتھ افریقہ فلسطین کی نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں گیا تاکہ اسرائیل کی سفاکانہ بربریت پر اسے مجرم ثابت کر سکے اور فوری جنگ بندی ممکن ہو سکے۔ گیارہ اور بارہ جنوری کو ساؤتھ افریقہ کے جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی نسل کشی کے خلاف اپنے بھرپور دلائل دئیے۔سوچتی ہوں کہ اس وقت پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ فلسطینیوں کو مارا جا رہا ہے ویڈیوز تصویریں اور فلسطینیوں کی تباہی کے مناظر ہر ایک شخص سکرین پر دیکھ رہا ہے مگر یہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ہے جس کی آنکھیں اور سماعتیں اس کھلی سفاکیت کی طرف سے بند ہیں۔ ساؤتھ افریقہ کے وکیل نے میں عدالت کے روسٹرم پر دنیا کو اسرائیل کی بربریت بارے آگاہ کیا۔ساؤتھ افریقہ نے اپنے موقف کی وضاحت میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا سنگین جرم کرتے ہوئے ،1948 کا جینو سائیڈ کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کنونشن پر اسرائیل اور فلسطین دونوں ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ساؤتھ افریقہ نے 84 صفحات پر مشتمل کیس فائل کیا ہے جس میں کہا ہے کہ 1948 کے جینوسائڈ کنونشن کی بری طرح وائلیشن ہو رہی ہے جنیوسائڈ کنونشن دوسری جنگ عظیم کے بعد اور ہولو کاسٹ کے بعد وجود میں آیا تھا۔یہ معاہدہ جینوسائیڈ کی تعریف یوں کرتا ہے۔ "Acts committed with intent to destroy in whole or in part, a national, ethical ,racial or religious اسرائیل کے سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ ہم اس کیس کا دفاع انٹرنیشنل ہیومینیٹیرین لا کے تحت گے۔ ساؤتھ افریقہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں گیا ہے تو ملائشیا، ترکیہ،اردن مالدیپ پاکستان اور او آئی سی کے تمام اسلامی ملک ساؤتھ افریقہ کو اپنی حمایت کا یقین دلارہے ہیں ۔امریکہ نے ساؤتھ افریقہ کے اس جرات مندانہ قدم کو اپنی ازلی خباثت کا نشانہ بنایا ہے نیشنل سکیورٹی کے ترجمان جان کربی ،نے ساؤتھ افریقہ کے انٹرنیشنل کورٹ میں فلسطینیوں کے حق میں کیس کرنے کو میرٹ لیس قرار دیا ہے اسرائیل کے صدر نے ساؤتھ افریقہ کی اس جرات پر یوں ہرزہ سرائی کی There is nothing more atrocious and preposterous than this lawsuit?تاریخی تناظر میں دیکھیں تو نیلسن منڈیلا کی اسی سیاہ فارم قوم نے اس کڑے وقت میں فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے جن کے آباؤ اجداد نے پہلی ہجرت میں ہمارے نبی کے ساتھیوں کو حبشہ میں خوشی خوشی اپنے ہاں پناہ دی تھی۔سبحان اللہ یہ اسی روایت کو نبھانے کی ایک کڑی ہیں سلام ساؤتھ افریقیوں کی انسان دوستی پر!ساؤتھ افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی کی حمایت کی ہے نیلسن منڈیلا کے تاریخی الفاظ تھے "our freedom is incomplete without the freedom of the Palestinian" نیلسن منڈیلا کا یاسر عرفات کے ساتھ خاص تعلق رہا ہے۔2004 میں یاسر عرفات کی وفات کے بعد بھی نیلسن منڈیلا نے اپنے الفاظ میں یاسر عرفات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فلسطین کی آزادی کی ایک علامت تھے۔ "وہ صرف فلسطین کے لوگوں کی جدوجہد آزادی کی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی جگہ پر پسے ہوئے طبقے کی آزادی اور حقوق کی علامت تھے وہ عرب ہوں یا غیر عرب ہوں" 5 دسمبر 2013 کو جب ساؤتھ افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا نے دیکھا کہ کہ فلسطینیوں نے بھی عظیم نیلسن منڈیلا سے اپنی محبت کا بھرپور اظہار، رملہ شہر کے مغربی کنارے پر نیلسن منڈیلا کا ایک دیو ہیکل مجسمہ نصب کرکے کیا ۔ساؤتھ افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا فلسطین کی جدوجہد آزادی کو ہمیشہ اہمیت دیتے رہے اور اس کے اظہار کے طور پر کفیہ keffiyeh اپنے گلے میں پہنا کرتے تھے۔یہ سفید اور کالا چیک دار رومال فلسطینی جدوجہد آزادی کی علامت ہے۔ ساؤتھ افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کی کفیہ پہنے ہوئے تصویر انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ساؤتھ افریقہ اج بھی اس روایت کی اور فلسطین کے ساتھ اس تعلق کے پاسداری کر رہا ہے۔ساؤتھ افریقہ کے صدر نے اسرائیلی مظالم کی مذمت میں جو پریس کانفرنس کی اس میں اپنے گردن کے گرد کفیہ لپیٹا ہوا تھا اور ہاتھ میں فلسطین کا جھنڈا پکڑا ہوا تھا۔ اسرائیل غزہ کے 560 مربع کلومیٹر رقبے پر 30 ہزار سے زائد بم گرا چکا ہے 23 ہزار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا 10 ہزار فلسطینی بچوں کے کومل بدنوں کو روند چکا مگر مسلمان ملک خاموش رہے ۔اب ساؤتھ افریقہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل کی سفاکیت کے خلاف کھڑا ہوا ہے تو 57 اسلامی ملک بھی جاگ گئے ہیں اور انہوں نے ساؤتھ افریقہ کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔عرب لیگ کے 22 ارب ملکوں کو بھی ہوش آگئی ہے وہ بھی پریس کانفرنسیں کر کے حمایت کا یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاریخ مگر یاد رکھے گی کہ القدس کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تھی تو دنیا کے مسلمانوں کہ پیروں میں اپنے اپنے مفادات کی بیڑیاں تھیں اور ان کی زبانیں کنگ تھیں ! مگر نیلسن منڈیلا کا ملک ساؤتھ افریقہ القدس کے مظلوم مسلمانوں آواز بن کر اس قیامت میں ان کے ساتھ کھڑا ہوا اور ان مظلوموں کا مقدمہ لے کر عالمی عدالت میں پہنچا ۔ جنوبی افریقہ کے شاہراہوں پر لاکھوں افریقی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نکل کر ساؤتھ افریقی زبان میں نعرے لگا رہے ۔ viva Alqudasجیو القدس viva Palestin جیو فلسطین vivia Hamasجیو حماس ستاون خاموش اسلامی ملکوں کے مقابل ساؤتھ افریقہ کو القدس کے مسلمانوں کا مقدمہ لڑتے دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے۔ viva South Africa!جیو ساؤتھ افریقہ !!ہم ہمیشہ تمہارے قرضدار رہیں گے۔