بلاشک وشبہ اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی آدمی کے لیے قیمتی تحفہ اور گراں قدر سرمایہ ہوتی ہے ۔انہی کی بدولت گھر میں چاروں طرف رونقیں اور مسکراہٹیں نظر آتی ہیں ۔ ہم پر ضروری ہے کہ جس طرح ہم ان کی بہتر نشو و نما کے لیے مناسب و مفید پرورش و کھلانے پلانے کا سوچتے ہیں اسی طرح ہم ان کی درست خطوط پر تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔ ہم جانتے ہیں کہ نوجوان کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، معاشرے کی خوشحالی ، ترقی اور عروج کا سارا دارومدارانہی پر ہی ہوتا ہے ۔ اگر نوجوانوں میں بگاڑ، فساد اور انحراف در آئے توصرف وہی تباہی کے شکار نہیں ہوتے بلکہ پورے کا پورا معاشرہ تنزلی ، پستی اور زوال کا شکار ہوجاتا ہے ، دوسری طرف اگر نوجوان صحیح رخ اور درست خطوط پر چلتے رہیں تو پوری قوم ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی دنیا و آخرت میں اپنا نام روشن کرتی ہے ۔ جوانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ قیامت کے روز پوچھے جانے والے پانچ سوالات میں سے چار کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ جوانی کے ساتھ ہی ہے ۔آج بدقسمتی سے یہ ذہن بنایا جا رہا ہے کہ ’’جوانی دیوانی ہوتی ہے ، اس لیے جتنا ہو سکے اس میں عیاشی کی جائے ‘‘۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جوانی انبیاء کرام ، صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ اور صالحین پر بھی آئی ہے لیکن مجال ہے کہ انہوں نے اس عمر میں بھی کوئی ایک قدم رب کی نافرمانی میں اٹھایا ہو۔ جوانوں کی اصلاح کے لیے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداز:نوجوانوں کی تربیت و اصلاح کے لیے بڑی مہارت اور خوش اسلوبی کی سخت ضرورت ہے ، ورنہ فائدے کی بجائے نقصان کا خطرہ ہے ۔ نوجوانوں کی اصلاح کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اندازیہ تھا کہ آپ انہیں اچھے القاب اورخوب صورت ناموں سے نوازتے ، انہیں کم عمری میں ہی قیادت و سرداری کے عہدے دیتے ، ان کی رائے کو اہمیت دیتے ، ان کے مشوروں پر عمل فرماتے ، ان کی غلطیوں کے آگے سینہ کشادہ رکھتے ، ان کی چھوٹی موٹی لغزشوں اور کوتاہیوں کو درگزر فرماتے ، انہیں راہنمائی کی ضرورت ہوتی تو لبیک کہتے ، وہ وافر چیز میں سے اگر کچھ لے آتے تو قبول فرماتے ، انہیں تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی ترغیب دلاتے ، اور ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا فرماتے ۔ دینی احکام اور ہماری ذمہ داریاں:اولاد جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔جوان اولاد کے احکام اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے سورۃ لقمان کا دوسرا رکوع ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوجوانی گزارنے کے لیے جن ہدایات سے نوازا ہمارے آج کے نوجوانوں کو بھی ان پر عمل کرنے کی شدید ترین ضرورت ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جوان اولاد کو ایسی نصیحتوں سے نوازتے رہیں جو اُن کے لیے دنیا و آخرت میں نفع بخش، مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ وہ ہدایات کیا تھیں؟۔ (۱) انہیں توحید و رسالت سمیت تمام اسلامی عقائد پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جائے ۔ اولاد جیسے جیسے بڑی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے وہ اپنے روز مرہ کے کاموں میں والدین سے بے نیاز ہوتی جاتی ہے ، اور یوں رفتہ رفتہ ان کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں ، ایسے وقت میں اگر ہم انہیں کلیتاً ان کے حال پہ چھوڑ دیں توخطرہ ہے کہ کہیں وہ الحاد و لادینیت کے شیطانی جال میں پھنس کر اپنا ایمان نہ برباد کر بیٹھیں ۔ (۲) انہیں یہ بھی سمجھائیں کہ وہ پوشیدہ اور ظاہر ہر حالت میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جوانی کے نشے میں بدمست ہوکر وہ چوری ڈاکہ، شراب نوشی، سگریٹ نوشی،اسمگلنگ ، جوا، فحش و مخرب اخلاق فلمیں ،ڈرامے دیکھنا، ناچ گانا کرنا، گالیاں دینا، لڑکیوں کو چھیڑنا، فٹ پاتھوں پر بیٹھناجیسی عادات وجرائم کے راستے پر چلنا شروع کر دیں۔ (۳)انہیں مسجد کا عادی بنائیں ، وہ جملہ ارکان اسلام نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃکے پابند اور ان پر سختی سے عمل کرنے والے ہوں ، کسی بھی حالت میں ان کے بارے میں سستی ، کوتاہی یا غفلت کے شکار نہ ہوں ۔ (۴)یہ بھی سمجھائیں کہ دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کی کوشش کرنا بھی انتہائی ضروری ہے ۔ وہ اس کام کو جس قدر ہو سکے لطف و مہربانی اور عزت و احترام سے سرانجام دیں۔ (۵) زندگی میں نامساعد حالات اور طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ، انہیں سمجھایا جائے کہ ایسے حالات میں وہ صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھیں۔ (۶) یہ بھی سمجھائیں کہ جب وہ کسی سے گفتگو کر رہے ہوں یا کوئی دوسرا ان سے ہم کلام ہو تو ان کو خود سے کم مرتبہ اور خود کو ان سے اعلیٰ و ارفع تصور کر کے ان سے روگردانی نہ کریں بلکہ ہمیشہ ان سے خندہ پیشانی اور کشادہ روئی سے پیش آئیں۔ (۷) یہ بھی بتائیں کہ وہ زمین پر عاجزی و تواضع کے ساتھ چلیں کہ یہ عباد الرحمن کے اوصاف میں سے ہے ۔ اکڑ اکڑ کر یا متکبرانہ انداز میں قدم رکھنا ممنوع ہے اور ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ کوئی محبت نہیں رکھتا۔ (۸) یہ بھی انہیں سمجھایا جائے کہ گفتگو کرتے وقت چلّا چلّا کر یا بلا ضرورت کڑک کڑک کر باتیں کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔ اللہ ایسی آوازوں کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دیتا ہے ۔ (۹) انہیں یہ بھی ہدایت دی جائے کہ خالق کی نافرمانی کے کاموں میں مخلوق کی اطاعت کرنا حرام اور گناہ ہے ۔ والدین ، اساتذہ ، سیاست دانوں یا بڑوں کی اطاعت صرف اسی وقت ضروری ہے جب وہ جائز امور میں ہو۔ (۱۰) وہ اپنے عقل و شعور اور فہم و فراست کو استعمال کرتے رہیں کہ کوئی بھی آدمی قائد یا لیڈر کے لبادے میں آ کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے ۔ ( ماخذ : کتب فقہ ، کتب احادیث ،کتاب الادب)