اقبال اشعر کی اردو کے بارے میں یہ غزل سبھی لوگوں کو بہت پسند ہے۔ اْردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی ہے ذوق کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے دکَن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا چکبست کی الفت نے میرے خواب سنوارے سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا فانی نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے ہے ’’میر‘‘ کی عظمت کے مجھے چلنا سکھایا اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی میں ’’داغ‘‘ کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی اْردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ اقبال نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی مومن نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی زبانوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی لباس مگر جذبات ضرور ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو جوائے آف اُردو عنوان پر اعتراض ہو مگر زبانیں خطوں کی ہوتی ہیں۔ زبانوں کا نہ تو کوئی جنم دن ہوتا ہے اور نہ ہی تہوار۔اردو برصغیر کے خطے کی زبان ہے۔اردو موسمِ بہار کی وہ چڑیا ہے جو گلشن میں کھلے پْھولوں پر منڈلاتی رہتی ہے۔دنیا میں بولی جانے والی دوسری بڑی زبان اردو ہے۔پیرس کی سڑکوں،امریکہ کی شاہراہوں،برطانیہ کے محلوں،پارکوں اور سوئزر لینڈ کے پہاڑوں غرض کہ ہر خطے میں جہاں اردو بولنے والے موجود ہیں،اس کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ جوائے آف اْردو ایک ایسی تنظیم ہے جو خود ساختہ ہے۔ کسی این،جی، اَو سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس پلیٹ فارم کو بنے ہوئے دس برس کا عرصہ بیت گیا۔جس سال ہم این۔ سی۔ اے سے اپنی ڈگری مکمل کر کے جا رہے تھے، اسی سال بہت سے لوگوں کا نیا داخلہ ہو رہا تھا۔ زرمینے انصاری نام کی ایک لڑکی اْسی سال وہاں آرکیٹیکچر پڑھنے کو آئی۔ اْس وقت کسے معلوم تھا کہ آنے والے دنوں میں یہ لڑکی اردو زبان کے لیے اتنی بڑی تنظیم بنا ڈالے گی۔ اْردو زبان صدیوں پہلے ہندوی، دکنی، دہلوی، ریختہ کہلاتی تھی۔ اْردو کا جنم گنگا جمنی تہذیب سے ہوا۔اْردو زبان کا لفظ ’’تْرکی‘‘سے ادھار لیا گیا، جس کے معنی ’’لشکر‘‘ کے ہیں۔ برصغیر میں فارسی زبان بولی جاتی تھی میں بہت سے الفاظ عربی کے بھی ہیں۔ اْردو زبان فارسی اورعربی کی تیسری بہن کی بھی حیثیت رکھتی ہے۔ستارھویں صدی کے آواخر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی زبان اردو نے اپنے لڑکپن کی گلیوں میں قدم رکھا۔برصغیر کے شعرا نے اْردو سے محبت کی اور شاہی درباروں میں اپنا اثرو رسوخ بڑھایا۔ اس وقت اْردو ادب کی دنیا میں اپنے قدم رکھ چکی تھی۔ مختلف مصنیفین نے اْردو میں لکھنے کی ابتدا کی۔ بہت سے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، مْنشی پریم چند، عصمت چْغتائی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی صاحب وغیرہ نے مختلف کہانیوں کی پرورش کی۔ دانش وروں کو بخوبی معلوم ہے کہ مْغلیہ دور میں آخری مْغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں غالب، ذوق، سودا، داغ اور علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر اْردو میں بے مثال شاعری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ مغل بادشاہوں کے درباروں اور فوجی چھاؤنیوں میں بولی جاتی تھی۔ اْردو رابطے کی زبان ہے۔ اسے کھڑی بولی بھی کہا جاتا ہے۔ امیر خْسرو کو بھی اس کا موجد کہا گیا ہے۔ انسان کو دو آنکھیں، دو کان، دو ہاتھ، دو پاؤں تو ملے ہیں مگر زبان ایک ملی ہے۔ یعنی بولنے سے پہلے اچھی طرح پرکھو، دیکھو بھالو اور کانوں سے سْن کر پھر بولو۔ مثلاً یہ کالم اگر کسی پینٹنگ سے مشابہ ہے تو میں اسے زبان کے رنگوں سے مصور کر رہی ہوں۔ اْردو مختلف زبانوں کے آسمان پر پھیلی ہوئی اْن ستاروں کی مانند ہے جن کی چمک سے گھرانے جھلملاتے ہیں۔ جوائے آف اْردو نے اس کی دسویں سالگرہ پر گلستانِ سعدی کی تین کہانیوں کو عصرِ حاضر کی دو بڑی زبانوں میں 26نومبر کو شائع کیا ہے۔ شیخ سعدی کی بچوں کے لیے لکھی گئی حکاتیں ان کے کردار کی تشکیل کے لیے صدیوں سے رائج ہے۔اس کتاب کی تدوین زرمینے انصاری، پیشِ الفاظ ڈاکٹر عارفہ سیدہ، علیم زبیری نے انگریزی ترجمہ اور تیمور خان ممتاز نے خطاطی کروائی۔ گلستانِ سعدی پر مشتمل یہ رنگا رنگ کتاب بلاشبہ دیس دیس میں بسنے والے بچوں حتیٰ کہ ان ٹین ایجزز کے لیے جو اْردو سے نابلد ہیں ایک شاندار اضافہ ہے۔ زبان چاہے مادری ہو یا خطے کی اس سے محبت دلوں میں کْوٹ کْوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اْردو زبان سونے کی کان جیسی ہے۔ پرانے وقتوں میں محاورے بھی روز مرہ کی بول چال کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح زبان میں کوسنے بھی بڑی شدو مد سے دیے جاتے تھے۔ ’’خدا کرے تیری زبان میں کیڑے پڑ جائیں۔‘‘ ’’تیرے بیٹے کو تیرا نام بھی یاد نہ رہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ! کوئی بھی زبان نہ تو لباس کی اور نہ ہی مرچ مسالوں کی محتاج ہے بلکہ الفاظ اور تلفظ اپنے معنی کے ذریعے دوسروں تک پہنچتے ہیں۔ ماں جب ہمیں سپارہ اور اْردو قاعدہ پڑھاتیں تو کہتیں الفاظ روانی کے ساتھ ادا کرنے چاہئیں غیر ضروری زور لگانے کی ضرورت نہیں۔ جوائے آف اْردو وہ بالسانی پلیٹ فارم ہے جس میں سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اْردو زبان وہ خزانہ ہے جس سے لکھاری دنیا کے تمام ملکوں کے رسم ورواج کی سیر کرتے ہیں۔ یقینا زبان وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے بالکل ویسے جیسے ہرپت جھڑ میں درخت اپنی پتیاں بدل دیتے ہیں لیکن پیڑ اپنی جڑوں کے ساتھ قائم رہتا ہے۔’’جوائے آف اْردو‘‘یقینا وہ مزے دار پلیٹ فارم ہے جس کی حیثیت اس دہقان کے جیسی ہے جو زمیں ہموار کرکے بوائی کرتا ہے۔ گندم کی بالیاں بھر کے اْترتی ہیں آٹا پیس کر روٹی تیار ہوتی ہے تو پورا گھرانہ اپنی بْھوک مٹاتا ہے۔ خدا کرے زرمینے انصاری اسی طرح اْردو کی ترقی وترویج کے لیے کام کرتی رہے۔