جلسوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ایک کر کے غیر مقبول ہونے کے خوف سے باہر آ رہی ہیں۔ وہ اس لئے باہر آ رہی ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور عوام میں جو دوری اپریل 2022ء کے بعد پیدا ہوئی اس خلا کو پورا کر سکیں۔ اس فارمولے پر بھروسہ کیا جا رہا ہے کہ جو پہلے لوگوں کو انگیج کر لے گا اسے سیاسی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ مسلم لیگ نواز کی مجبوری تھی۔ وہ اگر لاہور میں جلسہ نہ کرتی تو مینار پاکستان والا وہم کیسے دور ہوتا۔ اب چاہے مانگے تانگے اور پیسے خرچ کر کے مزدور جمع کئے لیکن سٹیج کے اردگرد سو دو سو لوگ نعرے لگا رہے ہوں تو لگتا ہے سارا پنڈال ہم آواز ہے۔ مریم نواز کی بے بسی کہ بار بار کہنے پر بھی کسی نے فون کی ٹارچ نہ جلائی‘ عطا تارڑ سارازور لگا کر بھی دیہاڑی داروں کو نعروں کا جواب دینے پر تیار نہ کر سکے۔ نواز شریف نے مخالف سیاسی جماعت کی عورتوں کے لئے جو کچھ کہا اس نے ان سے شائستگی کی امید ختم کر دی۔ وہ اپنے خاندان پر ریاستی ظلم کی کہانی سنا کر لوگوں کو جذباتی کرنے کی کوشش میں تھے۔ لوگوں کے سامنے ماڈل ٹائون میں لیگی حکومت میں شہید ہونے والی خواتین اور ان کے بچوں کی سسکیاں آ کھڑی ہوئیں۔ اس واقعہ کے سب کردار اس وقت نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ لاہور جلسے میں نواز شریف کوئی منشور نہ دے سکے۔ ان کی جماعت پر پاکستان کی معیشت ڈبونے کا جو بوجھ ہے وہ اسے کم نہ کر سکے۔ وہ اپنے بھائی کی سولہ ماہ کی حکومت کا دفاع نہ کر سکے۔ وہ صرف ایک کام کرنے میں کامیاب رہے۔ اسٹیبلشمنٹ پر احسان جتایا اور جلسے میں سابق فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بس اشاروں تک محدود رہے۔ استحکام پاکستان پارٹی تحریک انصاف سے ٹوٹا ہوا سیارہ ہے۔ابھی منظم جماعت بننے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن طویل خاموشی کے بعد ایک اچھا جلسہ خوش آئند ہے۔ جہانیاں میں پہلا جلسہ ہوا، لوگوں کی خاصی تعداد تھی، یو ٹیوبرز نے شرکا سے پوچھا وہ کیسے آئے تو اکثر نے مینار پاکستان والے جلسے کی طرح یہ نہیں کہا کہ انہیں بریانی اور دیہاڑی پر لایا گیا۔ اندازہ ہو سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلز اسی جماعت کی ٹکٹ پر جیتیں گے۔ استحکام پاکستان پارٹی نے دوسری جماعتوں کی نسبت عام آدمی کے مسائل کو سب سے پہلے اپنا ایجنڈا بنایا ہے۔۔ مزدور کی تنخواہ 50ہزار ‘ ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم اراضی والوں اور 300یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لئے مفت بجلی اور موٹر سائیکل والوں کے لئے رعائتی نرخوں پر تیل کی فراہمی جیسے اعلانات کئے۔ علیم خان کا شکوہ بھی بجا کہ عمران خان نے جس بزدار کو ہر ایک پر فوقیت دی وہ اس مشکل وقت میں غائب ہے ۔عمران خان نے جہانگیر ترین کو ضائع کیا۔ ممکن ہے پارٹی کے صدر علیم خان اور خود جہانگیر ترین اس بات کی کسی دوسرے وقت زیادہ بہتر طریقے سے وضاحت کر سکیں کہ انہیں کس طرح ضائع کیا گیا لیکن زرعی امور سے کچھ واقفیت ہونے کے باعث اس بات کا میں خود قائل ہوں کہ جہانگیر ترین کی زرعی شعبے سے متعلق سمجھ بوجھ اور بین الاقوامی تصورات پر چائنہ میڈ کاروباری تصورات کو ترجیح دے کر ظلم کیا گیا۔ اب خیر سے کئی لوگ آئی پی پی کا حصہ بن چکے ہیں۔مسلم لیگ کی جیت پر شرطیں لگائے بیٹھے دوستوں کو یہ بات محال لگتی ہے لیکن کل کلاں آئی پی پی اگر پنجاب میں حکمران بنتی ہے یا مرکز میں اسے کسی دوسری جماعت کی اتحادی بننے کی ہدایت ملتی ہے تو معلوم نہیں جہانگیر ترین اپنی صلاحیت دکھا پاتے ہیں یا انہیں پھر سے ایک طرف دھکیل دیا جائے گا۔ مجھے یہ خدشہ ماضی قریب کے واقعات کے باعث لاحق ہے۔ ہر کام کے آدمی کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کا وطن عزیز میں رواج ہے۔بہر حال جہانگیر ترین کی سیاسی فراست کو سر دست تصادم کا ماحول ٹھنڈا کرنے کے لئے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔یہ ان کا کردار اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ سیاست دانوں کی موجودہ لاٹ میں واحد آدمی ہیں جو پیشے کے اعتبار سے سیاستدان نہیں بلکہ صنعتکار و زمیندار ہیں۔وہ آم ،چارہ اور دوسری زرعی پیداوار برآمد کرتے ہیں۔ چینی اور بجلی پیدا کرتے ہیں۔مائننگ کو جانتے ہیں۔ سیاسی میدان میں ایک بڑی پیشرفت تحریک انصاف کے وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہے۔وفد کی مولانا کے پیچھے نماز پڑھنے کی تصویر پر کچھ شکوہ ضرور ہوا لیکن بات مفاہمت کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ عمران خان کے بے لچک رویے نے جہاں شدت پسندانہ خیالات کو فروغ دیا وہاں انہیں غیر ضروری مخالفتیں پالنے کی عادت میں پختہ کیا۔ وہ اپنی بھر پور سیاسی جدوجہد‘ اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے باوجود یہ نہ سمجھ سکے کہ پاکستانی ریاست کی ایک سیاسی شکل بھی ہے۔ ریاست اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے سیاسی فیصلوں میں شریک ہوتی ہے۔مولانا فضل الرحمان ریاست کی ایک ضرورت پوری کرتے ہیں۔ عمران خان اگر ٹھنڈے دل سے کبھی تجزیہ کریں تو انہیں معلوم ہو گا کہ پیپلز پارٹی نے ان پر کبھی اخلاقی الزامات نہیں دھرے‘ مولانا نے زیادہ سے زیادہ یہودی ایجنٹ کہا۔ اس کے مقابل مسلم لیگ ن نے سیتا وائٹ سکینڈل چلایا‘ جمائمہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا‘ ریحام خان کو استعمال کیا،فہرست طویل ہے۔عمران خان کا اپنا کہنا ہے کہ ان پر حملوں اور دیگر سنگین معاملات میں ن لیگ کے لوگ شامل ہیں۔ سبھی سے بیک وقت دشمنی نہیں رکھی جا سکتی۔ تحریک انصاف نے مولانا سے ملاقات کر کے اچھا کیا۔ مولانا کے استفسار پر اسد قیصر کی سربراہی میں ملنے والے وفد نے بتایا کہ اس ملاقات کی بابت چیئرمین تحریک انصاف کی رضا مندی شامل ہے۔ معلوم نہیں مولانا اس ملاقات کے بعد اپنے رویے میں کس حد تک لچک پیدا کرتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن نے فوراً مولانا سے رابطے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اتوار کو مولانا نے بھی جلسہ کردیا ۔ وہ عملیت پسند سیاستدان ہیں۔ وہ خیبر پختونخوا میں ووٹروں کے رجحان سے واقف ہیں۔ وہ یہ حساب یقینی طور پر لگا رہے ہیں کہ سندھ اگر پیپلز پارٹی کے پاس رہتا ہے‘ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کے لئے انہیں پی ٹی آئی سے بعداز انتخابات اتحاد کرنا ہو گا۔ بلوچستان میں الیکٹ ایبلز آئیں گے۔ میدان پنجاب میں لگے گا۔ نواز شریف کا اگرچہ اصرار ہے کہ انہیں دو تہائی اکثریت دی جائے لیکن اس بار انتخابی عمل کی شفافیت‘ الیکشن کمیشن کے کردار ‘ بعض حلقوں کی کھلے عام حمایت اور عدالت سے ملنے والی رعائتوں نے پہلے سے انتخابی عمل سے متعلق خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ایسے میں الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوئی تو سیاسی عدم استحکام دو چند ہو جائے گا۔ اگلی حکومت اس عدم استحکام کو سنبھال نہیں پائے گی۔ کاروبار چلیں گے نہ معیشت بحال ہو گی۔ قرض لینے کے راستے بھی بند ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کی حد تک مسلم لیگ نواز کا حکومت میں آنا ریاست کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ہاں دوسری کسی نئی جماعت اور نئی قیادت کو موقع دینے میں حرج نہیں۔ اس دوران تمام جماعتوں کو میثاق معیشت پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔