لاہور(نامہ نگار خصوصی)پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور سے متعلق فرانزک آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی جس میں یہ بات سامنے آئی ہے اب تک ہسپتال میں جگر کا ایک بھی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوسکا اور صرف 60 بیڈ ہی آپریشنل ہیں۔ جس پرعدالت نے(باقی صفحہ4نمبر24) پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیدیا۔گزشتہ روزسپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مذکورہ رپورٹ ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ اینڈ سروس کے ڈائریکٹر کوکب جمال نے پیش کی۔ رپورٹ ڈیجیٹل فارمیٹ کی شکل میں بھی جمع کرائی گئی ۔ رپورٹ میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ تعمیراتی کمپنی زیڈ کے بی کے مالک ظاہر خان کو پی کے ایل آئی کا پہلا ٹھیکہ دیا گیا، ظاہر خان شہباز شریف کا دست راست ہے ، پی کے ایل آئی کے قیام سے پہلے ایک سوسائٹی قائم کی گئی، سوسائٹی کو قانون کے برعکس حکومت پنجاب کی جانب سے عطیات دئیے گئے ۔ پی کے ایل آئی ایکٹ 2015 بنا کر بورڈ تشکیل دیا گیا، ایکٹ کے سیکشن 5 کی ذیلی شق 2 کے تحت حکومت کو بورڈ کے معاملات میں مداخلت سے روک دیا گیا، زیڈ کے بی کمپنی کا مالک ظاہر خان بورڈ کا ممبر بھی تھا، ابتدائی طور پر پی کے ایل آئی کی تعمیر کیلئے 12 ارب 13 کروڑ کی ادائیگی کی گئی، پہلے 3 سال سو فیصد جبکہ بعدآزاں 25 فیصد آپریشنل واجبات کی ادائیگی کا حکومت پنجاب نے وعدہ کیا، ہسپتال کی تعمیر کا ٹھیکہ سی پی جی نامی کمپنی کو دیا جسے 36 ماہ میں مکمل کرنا تھا، سابق وزیر اعلی پنجاب نے ہسپتال کی تعمیر کو فاسٹ ٹریک پر مکمل کرنے کی ہدایت کی، فاسٹ ٹریک کے تحت انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی، پیپرا رولز میں ترمیم کر کے اسے پیچیدہ منصوبہ قرار دیا گیا، ہسپتال کی تعمیر میڈیکل آلات کی فراہمی اور آئی ٹی کا ٹھیکہ آئی ڈیپ نامی کمپنی کو دیدیا گیا، آئی ڈیپ نے نیسپاک اور کورئین کمپنی کو کنسلٹینسی کا ٹھیکہ دیدیا، منصوبے کو 4 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے 16 ارب 84 کروڑ کی ایڈوانس رقم ان کمپنیوں کو ادا کر دی گئی، 2017 میں سابق وزیر اعلی پنجاب نے اس ہسپتال کا پہلا افتتاح کیا ، مئی 2018 میں پہلا کڈنی ٹرانسپلانٹ کیا گیا، آج تک گردوں کے 6 ٹرانسپلانٹ جبکہ جگر کا ایک بھی ٹرانسپلانٹ نہیں کیا گیا، ہسپتال کی تعمیر سے آج کے دن تک محکمہ صحت، محکمہ منصوبہ بندی اور محکمہ حزانہ نے 20 ارب 60 کروڑ کی رقم پی کے ایل آئی کو ادا کی، ہسپتال کی تعمیر کیلئے پیپرا رولز اور پی سی 1 کی شرائط کو نظرانداز کیا گیا، اربوں روپے کے منصوبے کی ایکنک سے منظوری نہیں لی گئی، محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات نے یہی راستہ اختیار کرتے ہوئے 56 کمپنیوں میں 177 ارب روپے کے پراگرام بنائے ، 477 بیڈ کے ہسپتال میں صرف 60 بیڈ آپریشنل ہیں، منصوبے میں اشتہارات کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے صرف کئے گئے ۔ رپورٹ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کرپشن ثابت ہو گئی تو ذمہ دار کو معافی نہیں ملے گی، 10 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں جا رہے ہیں، 20 لاکھ روپے ماہانہ پی کے ایل آئی کے سربراہ کے گھر جارہے ہیں اور جگر کا ایک ٹرانسپلانٹ نہیں کیا گیا، تعمیراتی کمپنی زیڈ کے بی ہر معاملے میں گھسی معلوم ہوتی ہے ، میرا وقت نکل جائے گا تو ان لوگوں نے بھاگ جانا ہے اور ان کا احتساب کسی نے نہیں کرنا۔ چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کی جانب سے رپورٹ داخل کرنے کیلئے زائد مہلت دینے کی استدعا مسترد کر دی جبکہ ڈاکٹر سعید اختر سے استفسار کیا کہ عدالت نے آپ سے کس چیز کی معافی مانگی، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مہم بند کریں، سب کچھ عدالت کے علم میں ہے تنبیہ کر رہا ہوں اگر مہم بند نہ ہوئی تو سخت کارروائی ہو گی، آپ جس میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں اسکے حقائق جان لیں تو آپ اپنے موکل کی وکالت چھوڑ دینگے ۔ عدالت نے پی کے ایل آئی کے وکیل کی جانب سے عدالتی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی جبکہ فرانزک آڈٹ رپورٹ پر حکومت پنجاب اور پی کے ایل آئی سے 20 اگست کو جواب طلب کر لیا۔ نام، ای سی ایل، حکم