کیسے ہوتا ہے یہ سب کے لیے جینا/ خود کو چھوڑ کر خود کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دکھوں کو سمیٹ لینا، محسوس کرنا ان کے آنسوئوں کو پونچھنا اور پی جانا اپنے نمکین آنسوئوں کو ایسے ہی آتا ہے ایسے ہی سیکھتا ہے دوسروں کے لیے کیسے جیا جاتا ہے جب ہم دوسروں کے لیے سوچتے ہیں تو دوسرے ہمارے لیے ہمارے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں یہی ایک چیز ہے جو کم ہے جس کے سبب ہم ختم ہوتے جاتے ہیں دوسروں کی فکرمندی سے ہم جی اٹھتے ہیں اپنے اور دوسروں کے اندر ہمارا جینا دوسروں کے لیے ہمارا اپنا جینا بن جائے تو امر ہو جاتی ہے یہ زندگی اچھی بھی تو ہو جاتی ہے اے خدا! ہمیں سکھا دے بتا دے کیسے ہوتا ہے یہ کام کیسے ہم جی سکتے ہیں اور کیسے مر سکتے ہیں ان کے لیے جن کے درمیان رہتے سہتے ہیں محبت کی نعمت تو عطا کردے تو سارے کام سارے ناممکن سے کام بھی آسان ہیں اے خدا! تو جو سراپا محبت ہے ہمیں بھی بنا دے سراپا محبت کہ محبت ہی سکھا دیتی ہے دوسروں کے لیے اور خود اپنے لیے جینا! ٭٭٭٭٭ زندگی کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے راستے پھلوں سے آراستہ تھے پھول خوش رنگ خوشبوئوں میں بسے ہوئے نگاہوں کو اچھے لگتے ہنستے کھیلتے کٹ جاتی گزر جاتی یہ زندگی اگر دنیا کے سارے راستے ایسے ہی پھولوں سے سجے آراستہ ہوتے ایسا نہیں ہے تو کہوں؟ کیا اس لیے کہ پھول نازک اور لطیف ہوتے ہیں ان سے پیار کرنا بہت آسان مگر حفاظت کرنا ان کی خوشبو اور حسن کی دیکھ بھال کرنا ان لوگوں کے لیے ممکن نہیں جو بیوی بچوں اور گھر بار کے بکھیڑوں میں الجھے، حالات کی تلخی اور گردوپیش کا رونا روتے یہ دیکھنا، محسوس کرنا بھی بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں پھول بھی کھلتے ہیں دنیا میں خوشبوئیں اور ایسی چیزیں بھی ہیں جن کے دیکھے سے آنکھیں روشن ہوتی ہیں اور کچھ دیر کو آدمی سارے دکھ اور اذیتوں کو بھول سکتا ہے لوگو! بھول جائو تھوڑی دیر کے لیے سب کچھ ایک پھول جھک کے توڑ لو اسے سونگھو اسے اپنی ناراض عورت کے بالوں میں پیچھے سے چپکے سے اڑس دو زندگی کو آسان اور خوبصورت بنایا جا سکتا ہے اسی طرح سے! ٭٭٭٭٭ یہ نہ بھولو! ایسا نہیں ہے ایسا بھی نہیں ہے (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) زندگی ناقابل برداشت ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ تم نظر انداز کردو چھوٹی چھوٹی ان خوشیوں کو جو روزانہ تمہیں چلتے پھرتے کام کاج کرتے اردگرد اچانک مل جاتی ہیں بات فقط اتنی ہے کہ تم انہیں پہچانتے نہیں اپنے دکھ اور اذیتوں کا رونا روتے ہوئے یہ بھول جانا اچھا نہیں کہ خداوند تعالیٰ نے ہر دکھ کے پیچھے ایک سکھ ایک مسرت کو بھی لگا رکھا ہے دکھ کو دیکھ کر سکھ کو بھول جانا درخت کے گرے ہوئے پتوں کو صحن سے صاف کرتے ہوئے الجھنا اور بڑبڑانا اور یہ بھول جانا کہ درخت پہ پھل بھی ہیں بھلا یہ ناشکرا پن نہیں پھل کاٹتے کاٹتے چاقو سے انگلی کا زخمی ہو جانا آدمی کو شکوہ سنج کردیتا ہے مگر یہ فراموشی کہ پھل کس قدر میٹھے اور رسیلے تھے ہاں زندگی دھوپ چھائوں دکھ اور سکھ کا میلہ ہی تو ہے اچھے کو لے لینا اور برے کو اپنی بدنصیبی جاننا زندگی کو بوجھل اور تکلیف دہ بنا دیتا ہے