7اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملہ کے جواب میں، جس طرح اسرائیل غزہ کی پٹی پر قہر برسا رہا ہے، ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا حماس کی کارروائی واقعی اس قدر ضروری یا اتنی مستحق تھی کہ اتنی ہلاکتوں کا بار اٹھا سکے؟ غزہ میں بچوں اور خواتین کی لاشیں دیکھ کر ،ان مظلوم عوام کے نالے سن کر تو آسمان شق ہو جاتا ہے۔ایسے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کیلئے میں نے حماس کے کئی چوٹی کے راہنماوں ،تنظیم کے بین الاقوامی امور کے سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور پولٹ بیورو کے رکن اسامہ ہمدان سے رابط کرنے کی کوشش کی۔ اسامہ ہمدان نے انٹرویو کیلئے حامی تو بھرلی مگر انتہائی مصروفیت کی وجہ سے وقت نکال نہ سکے۔خیر کسی طرح مسلسل صبح و شام رابطہ کرنے اور کئی احباب کی مدد لیکر موسیٰ ابو مرزوق سے بات کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ اسی دن روس کے دورہ سے واپس آگئے تھے، جہاں انہوں نے روسی لیڈروں کو اسرائیل کے ساتھ ہورہی جنگ کے بارے میں بریف کیا تھا۔ 2017میں خالد مشعل کی مدت ختم ہونے کے بعد مرزوق حماس کی سربراہی کے دعویدار تھے، مگر اندرونی انتخابات میں ا ن کو اسماعیل ہانیہ نے ہرایا۔ وہ اس وقت مزاحمتی تنطیم کے کور گروپ کے ممبر ہیں۔ ان کی فیملی کا تعلق یبانہ قصبہ سے ہے، جو اب اسرائیل کی ملکیت میں ہے۔ 1948میں ان کے والدین کو گھر سے بے گھر کردیا گیا اور وہ مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کے رفاء کے علاقہ کے ایک ریفیوجی کیمپ میں منتقل ہو گئے۔ وہ اسی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غزہ میں مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کنسٹرکشن منیجمنٹ میں امریکہ کی کولاریڈو یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ میرے ذہن میں کئی سوالات کلبلا رہے تھے۔اسلئے میں نے چھوٹتے ہی ان سے پوچھاکہ 7اکتوبر کو آپ کے عسکریوں نے دنیاکی ایک مضبوط ترین فوج سے لوہا لیکر حیران و پریشان تو کردیا، مگر جس طرح اسرائیل اب جوابی کارروائی کر رہا ہے، جس طرح عام شہری اور بچے مارے جا رہے ہیں، کیا یہ کاروائی اس قابل تھی کہ اتنی قیمت چکاسکے؟ ابو مرزوق نے کہاکہ ’’ فلسطینیوں پر مظالم یا فلسطین کی کہانی 7 اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی۔اس کی جڑ دہائیوں پر محیط قبضہ ہے، جس کے دوران سینکڑوں قتل عام کیے گئے۔ اسرائیل روزانہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی مزاحمت کے مارتا ہے۔ غزہ کی پٹی کا محاصرہ 17 سال پرانا ہے، اور یہ ایک سخت محاصرہ ہے ۔جس میں اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی کیلوریز کو بھی کنٹرول کرتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اور نوجوانوں کی اکثریت کا مستقبل تباہ ہو گیاہے۔ آپ مجھے بتاوٗ ،کیا ہتھیار ڈالنا یا اسرائیل کے سامنے خود سپردگی کرنا کوئی حل ہے؟ جن لوگوں نے ہتھیار ڈالے کیا اسرائیلیوں کو وہ قابل قبول ہیں، کیا ان کے خلاف کارروائیاں کم ہوئی ہیں؟ اسرائیلی صرف فلسطینیوں کو قتل کرنا اور ان کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ابھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو نقشہ لہرایا، اس نے تو ان کے عزائم کو تو صاف اور واضح کردیا ۔ہم ایک آزادی کی تحریک ہیں جو مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہم صرف آزادی چاہتے ہیں کیونکہ ہم قبضے کے تحت رہنا نہیں چاہتے۔ جس طرح ہندوستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا 1857 کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے نا جائز تھی؟ اگر وہ جائز تھی اور اسکا دفاع کیا جاسکتا ہے، ، تو ہماری جدو جہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے ، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔ــ‘‘ میں نے دوسراسوال داغا، مگر آپ نے تو نہتے اور عام اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا، اس کی کیا جواز ہے؟ ابو مرزوق جواب دیا کہ شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اسرائیلی بیانیہ ہی غلط ہے۔ خود کئی اسرائیلیوں نے گواہی دی ہے، کہ ہمارے عسکریوں نے ان کو نشانہ نہیں بنایا۔ایسی شہادتیں بھی ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کو مارنے والوں میں انکی اپنی فوج ہی ملوث تھی، کیونکہ فوج نے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کیلئے رہائشی علاقوں پر بمباری کی، جس میں درجنوں شہری مارے گئے۔ ہمارے جنگجوؤں کے پاس ہلکے ہتھیار اورزیادہ سے زیادہ ہلکے مارٹرز تھے۔ جن اسرائیلی علاقوں کی تباہی اور بربادی کو کو ٹی وی پر دکھاکر ہمارے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، کسی بھی ماہر سے اس کا معائنہ کروادیں، وہ بکتر بند گاڑیوں کے گولوں اور بھار ی ہتھیاروںسے تباہ ہوگئے ہیں۔ ہمارے پاس اس طرح کے ہتھیار ہی نہیں تھے۔ جہاں تک اس میوزک فیسٹیول کا تعلق ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور واویلا کیا جا رہا ہے کہ وہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ہمیں بالکل معلوم نہیںتھا کہ اس علاقہ میں کوئی میلہ لگا ہوا ہے۔ جب ہمارے جنگجو وہاں پہنچے، وہاں اسرائیلی فوج سے جم کر مقابلہ ہوا۔ ان کو نکالنے یا راہداری دینے کے بجائے اسرائیلی فوج نے ان کی آڑ لی۔ یہ علاقہ وار زون بن گیا۔ اسرائیلی فوج نے تو اس علاقہ میں میزائل داغے۔‘‘ اس سوال کے جواب کو جاری رکھتے ہوئے ابو مرزوق نے اعتراف کیا کہ جب ان کے جنگجووں نے سرحد عبور کی، تو وہ سخت مقابلہ کی توقع کر رہے تھے، ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ عسقلان تک ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بارڈر پوسٹ پر اسرائیلی گارڑز نے ہتھیار ڈال دیے یا بھاگ گئے۔ جس کی وجہ سے خاصی افراتفری مچ گئی۔جب سرحد کی باڑ ٹوٹ گئی، تو غزہ کی پٹی سے سینکڑوں شہری اور دیگر افراد دھڑا دھڑ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوئے۔ یہ نظم و نسق کا معاملہ تھا، مگر ایسے وقت میں اس کو سنبھالنا مشکل تھا۔ ہماری پلاننگ میں ایسی صورت حال کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ ان شہریوں نے اپنے طور پر کئی اسرائیلوں کو یرغمال بنادیا۔ ’’ہم نے تمام متعلقہ فریقوں کو مطلع کیا ہے کہ ہم عام شہریوں اور غیر ملکیوں کو رہا کر دیں گے، اور ہم انہیں نہیں رکھنا چاہتے، اور ان کو پکڑکر رکھنا ہمارے منشور میںنہیں ہے۔ ہم ان کی رہائی کیلئے مناسب حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کے وجہ سے یہ مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ‘‘ میں نے ان سے پوچھا کہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے حملے کا ایک مقصد ابراہیمی معاہدے یا عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان نارملائزیشن کے معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے حماس کے حملے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ عرب عوام تو پہلے ہی انکو مسترد کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ 40 سال قبل امن معاہدے کیے تھے، لیکن ان کے عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ (جاری ہے)