وفاقی حکومت کے قیام کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اتفاق رائے ہوگیا ہے جس کا اعلان باقاعدہ طور پر ایک پریس کانفرنس میں کر دیا گیا جس کے مطابق وزیراعظم پاکستان کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے میاں محمد شہباز شریف کا نام تجویز کیا ہے جبکہ صدر مملکت کے لیے آصف علی زرداری کا نام سامنے آیا ہے پنجاب میں گورنر پیپلز پارٹی کا ہو گا ۔بلوچستان اور سندھ کے گورنر مسلم لیگ ن کے ہوں گے۔ کے پی کے کے گورنر کا عہدہ مولانا فضل الرحمن کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ہمارے نمبرز پورے ہیں ۔نامزد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ایم کیو ایم ‘ آئی پی پی اور ق لیگ ہمارے اتحادی ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہمارے اس اتحاد نے مہنگائی‘ دہشتگردی اور ترقی کیلئے مل کر کوششیں کرنی ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ آزاد امیدواران قومی اسمبلی اپنی اکثریت دکھائیں تو دل سے قبول کریں گے۔ یہ باریاں لینے کی بات نہیں ہمیں پاکستان کو اور قوم کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ ہم نے ملک کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار دلوانا ہے۔ ہمارے اتحاد میں بزرگ بھی ہیں اور نوجوان بھی ہیں دونوں مل جائیں تو بڑی طاقت بن جاتے ہیں۔ ہماری جستجو پاکستان اور آنے والی نسلوں کیلئے ہے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ پی پی نے کسی وزارت کا تقاضا نہیں کیا۔چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دیگر عہدوں کیلئے بھی فیصلے کر لئے ہیں ان کا اعلان بعد میں کریں گے انہوں نے کہا کہ یہ سفر آسان نہیں یہ سفر کانٹوں سے بھرا ہے ہم نے جمہوریت کی خاطر یہ چیلنج قبول کیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کیلئے مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔ 16 ماہ کا ہمیں جو تجربہ ہے اس کی وجہ سے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کون گورنر بنے گا اور کون سپیکر بنے گا ان عہدوں میں عوام کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس موقع پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہماری جستجو پاکستان اور آنے والی نسلوں کیلئے ہے سب دوستوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یقین دلاتے ہیں آنے والی نسلوں کیلئے ملکر کام کریں گے۔ ہمیں پاکستان کو مشکلات سے نکال کر آسانیوں کی طرف لانا ہے۔8 فروری کے عام انتخابات کے بعد پاکستان کے عوام نے منقسم منڈیت دیا ہے جس کے مطابق آزاد امیدواروں کی تعداد 90 کے قریب ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبران کی تعداد 80 کے قریب ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبران کی تعداد 55 کے قریب ہے ایم کیو ایم کے ممبران کی تعداد 17 ہے آئی پی پی کے ممبران کی تعداد 3 ہے باقی سنگل سنگل نشت والی جماعتوں کا بھی ن لیگ سے اتحاد ہے اس اعتبار سے خصوصی نشستوں کی تعداد بھی ان کو زیادہ ملے گی۔ عددی اکثریت ثابت کرنے کے لیے اس اتحاد کے پاس نمبرز پورے ہیں یوں ایک بار پھر عام انتخابات کے 12 دن بعد ملک سے غیر یقینی صورتحال ختم ہوئی اور وفاقی حکومت بنانے کا نقشہ سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن اپریل 2022ء سے لیکر اگست 2023ء تک پی ڈی ایم طرز کی حکومت میں شراکت داری کر چکی ہیں ایم کیو ایم اور جہانگیر ترین گروپ پہلے بھی اس حکومت کا حصہ رہا ہے، اس بار صرف مولانا فضل الرحمن جو کہ پی ڈی ایم کے قائد تھے اس کا حصہ نہیں بن رہے۔اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت میں شراکت داری کا فارمولا طے کر لیا ہے، پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اکثریت ہے اور چیف آرگنائزر پاکستان مسلم لیگ ن مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد ہو چکی ہیں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے وہاں کے مراد علی شاہ بطور وزیر اعلیٰ کا اعلان ہوچکا ہے لیکن امکان غالب ہے کہ مراد علی شاہ ہی سندھ کے آسانی سے وزیر اعلیمنتخب ہو جائیں گے ۔کے پی کے میں سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈہ پور وزیر اعلیٰ نامزد ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کا امکان ہے۔ وہاں مسلم لیگ ن اکثریت میں آ چکی ہے، امید ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں یہ مراحل طے ہو جاہیں گے وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں تو بن جاہیں گی، انتخابات میں دھاندلی کا بھی شور جاری رہے گا ۔محاذ آرائی، لڑائی، زور آزمائی کا پھر نیا دور شروع ہو گا کیونکہ پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں ہوں گے۔ کمزور مخلوط حکومت کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا رہے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی وفاقی حکومت شہباز شریف کی قیادت میں ملک کی معاشی، سیاسی مسائل میں استحکام لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے؟ آئی ایم ایف کے ساتھ کس طرح قرضے کے معاملات کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوتی ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے اس وقت بین الاقوامی سطح پر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر بھی نئی وفاقی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور معاشرتی استحکام آئے اور ملک میں دہشت گردی اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کئے جا سکیں۔ ٭٭٭٭