حج کے لغوی معنی’’ کسی شے کا ارادہ یا قصد کرنے ‘‘کے ہیں، اور شرعی اعتبار سے حج سے مراد خاص شروط کی ادائیگی کے ساتھ معین دنوں میں اﷲ تعالیٰ کے گھر کی طرف جانے کا ارادا کرنا ہے ۔ حج اِسلام کے پانچ بنیادی ستو نوں میں سے پانچواں اہم ستون اور رکن ہے ۔چنانچہ حضرت عبداﷲ ابنِ عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: اِسلام کی بنیاد پانچ اُمور پر ہے ، (اِس بات کی) گواہی دینا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہے اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اﷲ کا حج کرنا، (سننِ ترمذی،ابواب الایمان، باب ماجاء بنی الاسلام علی خمس، رقم الحدیث: 2609)اِس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ اِسلام کی یہ بلند و بالا عمارت ستونوں میں سے حج ایک اہم ستون ہے ،جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں اِسلام کی عمارت کمزور ہوجائے گی۔ زیرِ مطالعہ حدیث مبارک سے کی رُو سے حج روزے کی طرح ہر سال فرض نہیں بلکہ زندگی میں ایک مرتبہ ہی حج کرلینے سے اِس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے ، البتہ نفلی حج کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ یعنی فرض حج کرنے کے بعد اگر کوئی شخص مزید حج کرتا ہے ،تو وہ اُس کی طرف سے نفلی حج میں شمار ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حج صرف اُن لوگوں پر فرض قرار دیا ہے جو بیت اﷲ شریف تک جانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہاں استطاعت سے مراد کون سی طاقت ہے ؟ کسی کے بارے میں کب یہ کہا جائے گا کہ یہ صاحبِ استطاعت ہے ؟چنانچہ جب کسی شخص نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کن اُمور کی موجودگی میں کسی پر حج فرض ہوجاتا ہے ،تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دو ہیں: ایک زادہ راہ اور دوسرا سواری۔ زادہِ راہ سے مرادوہ تمام چیزیں ہیں،جن کی ضرورت دورانِ سفر گھر آنے تک رہتی ہے ۔ اِن چیزوں میں نان ونفقہ،ہوٹل میں قیام کے اخراجات اور دیگر اخراجات ہیں۔ زادِ راہ میں اُن افراد کے اِخراجات بھی شامل ہیں، جو حج کرنے والے کے زیرِ کفالت ہیں اور اُن کی معاشی کفالت اُس پر واجب ہو یعنی بال بچے وغیرہ۔ جبکہ سواری سے مراد وہ اَسباب و سائل ہیں،جن کے ذریعے حج کرنے والا اپنے گھر سے مکہ مکرمہ اور وہاں سے واپسی کا سفر طے کرسکے اور جس راہ سے وہ جارہا ہے وہ محفوظ بھی ہو۔ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بے سروسامانی کے ساتھ حج کے لیے جانے سے منع فرمایا ہے ، کیونکہ یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے منافی عمل ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب کے کچھ قبائل خصوصًا اہلِ ایمن کی یہ عادت تھی کہ جب وہ حج کے لیے جاتے ،تو اپنے ساتھ سفر کے اِخراجات و غیرہ لے کر نہیں جاتے اور اسے عین توکل علی اﷲ سمجھتے حالانکہ توکل علی اﷲ کا مفہوم یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ اپنی بساط بھر دُنیوی اسباب و وسائل اختیار کرکے اُن کے نتائج کو اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دے ۔ اب چونکہ اُن کے پاس زادِ راہ نہیں ہوتا لہٰذا وہ راستے میں اور مکہ مکرّمہ پہنچنے کے بعد لوگوں سے بھیک مانگتے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی مرتبہ چوری اور خیانت کے بھی مرتکب ہوجاتے جس کی وجہ سے نہ صرف خود پریشان ہوتے بلکہ دوسروں کی پریشانی کا سبب بھی بنتے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں انسانی عظمت و رفعت کے خلاف اِس قبیح عمل سے روک دیا۔سفرِ کے اِخراجات اور نان ونفقہ کے بغیر حج پر جانے کے دیگر نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اِس کی وجہ سے بیت اﷲ شریف میں یکسوئی کے ساتھ عبادت و ریاضت نہیں ہوپاتی کیونکہ زیادہ توجہ اِس امر کی طرف ہوتی ہے کہ کوئی ایسا شخص مل جائے ،جس سے کچھ مانگ کراپنی ضرورت پوری کی جائے ۔ یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے خلاف ہے ۔ ’’اِستطاعت‘‘ میں تندرست ہونا بھی شامل ہے ، لہٰذا ایسا شخص جس کے اعضاء سلامت نہیں بلکہ وہ اپاہج ہے یا فالج زدہ ہے یا اِس قدر نحیف ہے کہ سواری پر سوار ہونا بھی محال ہو، تو ایسے شخص پر حج فرض نہیں۔اُس پر نہ خود حج کاکرنا فرض ہے اور نہ ہی وصیت کرنا اور حجِ بدل کرانا لیکن اگر کوئی شخص پہلے تندرست تھا اوراُس پرحج کی ادائیگی کے حوالے سے دیگر شرائط بھی پوری ہورہی ہوں،تو اُس پر حج بھی فرض تھا،اُس نے نہیں کیا اور بعد میں اپاہج یا نحیف ہوگیا،تو اُس سے حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ اُس پر لازم ہے کہ وہ کسی کو حجِ بدل کرائے وگرنہ گناہ گارہوگا۔ حج اَرکانِ اِسلام سے ہے ،جس پر اِسلام کی یہ بلند و بالا عمارت قائم ہے ۔ لہٰذااِسے ادا کرنا اِسلام کی اِس عمارت کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے ۔ حج کی اِسی اہمیت کے پیشِ نظر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ اِس کی ادائیگی لازم قرار دے دی گئی اور اِس میں کسی بھی قسم کی رو رعایت نہیں رکھی گئی۔ لہٰذا طاقت و اِستطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے والے کے لیے قرآن وسنت میں سخت ترین وعید بیان کی گئی ہے ۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ہے ترجمہ:" اور جس نے (حج کی ادائیگی سے ) اِنکار کیا،تو بے شک اﷲ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے ، (سورۃ اٰلِ عمران،)"۔اِس آیتِ کریمہ میں حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں حدیث مبارک میں ایسے اہل ایمان کو جن کے پاس حج کرنے کے وسائل جمع ہوچکے ہیں اور اُنہوں نے حج کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ،کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ اب وہ اِس کی ادائیگی میں بالکل تاخیر نہ کریں بلکہ جتنی جلدی ہوسکے ،اِس اہم فریضہ سے بری الذِّمہ ہوجائے ۔ کیونکہ انسان کی زندگی کا پتہ نہیں کہ کس وقت اختتام پذیر ہوجائے ، روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اﷲ کو پیارے ہورہے ہیں، انسان اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے کہ ایک شخص ایک صحت مند و تندرست ہے اور کل وقتِ اجل آجاتا ہے اور چلتے پھرتے دنیا سے چلا جاتا ہے یا زندگی تو رہے لیکن بیماری کی وجہ سے یا کسی ناگہانی آفات کی وجہ سے بعد میں حج کرنے کی سکت ہی نہ رہے ،تو جب زندگی کی حقیقت یہی ہے ،تو پھر تاخیر کس بات کی۔ بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ حج بڑھاپے میں کرنا چاہیئے ،جب بندہ زندگی کے ہر معاملے سے فارغ ہوجائے حالانکہ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے ، کیونکہ جوانی کا حج سب سے بہترین حج ہوتا ہے ۔حج ایسی عبادت ہے ،جس میں صعوبتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، اِحرام باندھنے سے لے کرمنیٰ میں قیام، وقوفِ عرفات، مزدلفہ میں پڑاؤ، طوافِ کعبہ، صفا مروہ کی سعی تک سارے اُمور مشقت و محنت کے متقاضی ہوتے ہیں،لہٰذا بڑھاپے میں انہیں ادا کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے ،جس کا مشاہدہ حرم شریف میں جاکر کیا جاسکتا ہے ۔جبکہ جوان شخص اِن تمام مشکلات کو بڑی آسانی سے برداشت کرکے مناسکِ حج ادا کرلیتا ہے ۔لہٰذا اگر وسائل جوانی میں دستیاب ہوجائیں،تو پھر بڑھاپے کا انتظار کیوں؟ حج مغفرت کا عظیم ترین ذریعہ ہے ،چنانچہ حدیث مبارک میں ہے : مَنْ حَجَّ ہٰذَا الْبَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَمَا وَلَدَتْہُ اُمُّہُ ترجمہ:’’جس نے حج کیا اور اُس دورانِ حج ازدواجی تعلقات رہا اورنہ ہی فسق و فجور میں مبتلا ہو،تو وہ حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر ایسے ہی واپس لوٹے گا،گویا کہ آج ہی اُس کی والدہ نے پیدا کیا ہو،(سننِ ابنِ ماجہ، کتاب المناسک، باب فضل الحج والعمرۃ، رقم الحدیث:2889)‘‘۔