حرص حکمرانی کا لازمی حصہ رہتا آیا ہے۔ میاں نواز شریف کو معلوم تھا کہ جام صادق کو حکمران بنانا کسی بھی طور سے جمہوری عمل نہیں ہے مگر ہر حکمران چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اقتدار اس کے ہاتھوں میں ہونا چاہئیے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر رکھنے جیسی ہے کہ جب میاں نواز شریف کو پرویز مشرف نے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ روانہ کیا تھا اس وقت سندھ کی حکومت اس غوث علی شاہ کے ہاتھ میں تھی جس سے اب میاں نواز شریف ہاتھ بھی نہیں ملاتے۔ سیاستدان تو بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک سیاستدان کی غلطی سے دوسرا سیاستدان نہیں سیکھتا۔ اگر سیاست میں دوسرے کی غلطی سے سیکھنے کی روایت ہوتی تو سیاست کا ارتقاء نہ معلوم کس مقام تک پہنچ گیا ہوتا۔ شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو جب جلاوطنی کے دوراں آپس میں لڑنے کے نقصان کا اندازہ ہوا انہوں نے بیرون ملک بیٹھ کر ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا معاہدہ کیا مگر اس معاہدہ پر آصف علی زرداری نے عمل نہیں کیا۔ حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ وہ پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکتے مگر پھر بھی انہوں نے پنجاب پر گورنر راج نافذ کیا۔ کیا ضرورت تھی آصف زرداری کو پنجاب پر راج کرنے کی؟ اس وقت بینظیر بھٹو کے خون سے پیپلز پارٹی کا پرچم تر تھا۔ اس لیے ایوان صدر میں نہ صرف آصف علی زرداری کو قبول کیا گیا بلکہ یہ بھی برداشت کیا گیا کہ ایوان صدر میں ’’جیئے بھٹو‘‘ کے نعرے گونجتے رہیں۔ جب کہ سب کچھ سیاسی ہونے کے باوجود کچھ رسمی تکلفات ضروری بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صدر مملکت کا عہدہ شروع سے غیر سیاسی نہیں رہا مگر پھر بھی دنیاداری کے حوالے سے دکھایا جاتا ہے کہ ایوان صدر میں بیٹھنے والا سیاسی تعلق سے دور رہتا ہے۔جب پاکستان کے صدر آصف زرداری تھے تب ایوان صدر میں ’’جیئے بھٹو‘‘ کے اتنے نعرے لگائے گئے جتنے نعرے شاید ہی بلاول ہاؤس میں لگائے گئے ہوں۔ کیا یہ بھٹو سے محبت کا اظہار تھا یا اقتدار سے حرص کا تقاضہ تھا۔ اس وقت آصف زرداری کے پاس کیا کچھ نہ تھا؟ وفاقی حکومت ان کی تھی۔ ایوان صدر میں وہ خود بیٹھے ہوئے تھے۔ سندھ میں ان کی مرضی کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ بلوچستان میں بھی ان کا حکم چلتا تھا اور اے این پی تو ایک پردہ تھی؛ خیبر پختون خوا میں اصل حکومت تو آصف علی زرداری کی تھی اور خود پنجاب میں مرحوم سلمان تاثیر جس طرح گورنر ہاؤس کو چلاتے تھے ان کے وہ انداز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ وہ صرف شام کی محفل کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی شان میں گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی صبح بھی اس انداز سے شروع ہوتی تھی۔ آصف زرداری نے جس طرح اقتدار کو انجوائے کیا؛ پرویز مشرف کے بعد ان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مشرف صاحب کی وردی اترنے کے بعد ان کی پوری طاقت ختم ہوگئی ؛ جب کہ آصف زرداری شلوار قمیض اور سندھی ٹوپی میں پورے پاکستان پر حکومت کرتے رہے مگر پھر بھی ان سے پنجاب میں شریف فیملی کا اقتدار برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے وہاں وہ گورنر راج نافذ کیا جس کو ختم ہی ہونا تھا۔ حالانکہ اس راج کو قیام دینے کی غرض سے آصف علی زرداری ایوان صدر سے پنجابی طرز کے شملے باندھ کر نکلتے اور جیل میں سیکھی ہوئی پنجابی میں تقریر کرتے مگر تقریر سے اقتدار حاصل نہیں ہوتا۔ اگر تقریر سے اقتدار مشروط ہوتا تو پاکستان کا وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نہیں بلکہ معراج محمد خان ہوتا۔ آصف زرداری کو بھی پتہ تھا کہ گورنر راج کے تحت پنجاب کو چلانا ممکن نہیں ہے مگر انہوں نے پھر بھی بڑے شوق کے ساتھ یہ غلطی کی اور اس غلطی کی قیمت بھی ادا کی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی تیسری بار حکومت کے سر پر روز اول سے گورنر راج یا ان ہاؤس تبدیلی کی تلوار لٹکتی رہی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی پارلیمینٹ میں پوزیشن مضبوط ہوتی تو سندھ میں پی پی حکومت کی بنیاد ختم ہو چکی ہوتی۔ مگر آصف زرداری کی قسمت اچھی ہے کہ وہ ہر آزمائش سے باہر آجاتے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ وہ جیل میں کس طرح گئے اور کس طرح اپنے ہمشیرہ کے ہمراہ باہر نکل آئے ۔ اصل بات یہ ہے کہ سند ھ میں کچھ بھی ڈلیور نہیں کرنے کے باوجود ان کی حکومت تیسری بار بھی بغیر کسی خطرے کے سانس لے رہی ہے۔ سندھ میں اپنی حکومت کرنے کے لیے تحریک انصاف نے جو منصوبہ بنایا تھا اس پر عمل نہ ہونے کی ایک نہیں بہت ساری وجوہات ہیں مگر اس بار اگر ملک کو کورونا وائرس نے نہ جکڑا ہوتا تو مراد علی شاہ حزب اختلاف کے رہنما بن کر سندھ اسمبلی میں چیختے چلاتے نظر آتے۔ مگر سندھ میں تحریک انصاف کے اتحادیوں سے مزید انتظار نہیں ہو رہا۔ ایم کیو ایم کو آن بورڈ لیتے ہوئے ان کے کان میں سرگوشی کی گئی تھی کہ وفاقی حکومت میں ملنے والے حصے کو مت دیکھیں۔ سندھ حکومت کے سائے میں جو ملنے والا اس کو دیکھیں۔ جہاں تک جی ڈی اے کا تعلق ہے وہ تو سرگوشی کی زبان نہیں سمجھتے۔ انہوں نے سندھ میں بلند بالا آواز میں دعوی کیا تھا کہ وہ بہت جلد اقتدار میں آنے والے ہیں۔ جی ڈی اے والے تو تو آپس میں وزارتیں بھی بانٹ کر بیٹھے ہوئے تھے مگر وہ پہلے گورنر راج اور پھر ان ہاؤس تبدیلی کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے۔ مگر جب بھی سندھ حکومت کے خلاف کوئی سرگرمی ہوتی ہے تب جی ڈی اے میں نئی جان پڑ جاتی ہے۔ اس بار بھی جی ڈی ہے امید سے ہے۔ اس بار جب شاہ محمود قریشی نے سندھ میں داخل ہونے کا نعرہ لگایا ہے تب ایک طرف کنگری ہاؤس میں چاندنیاں لگ رہی ہیں اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کے حلقوں میں صف ماتم بچھ رہی ہے۔ حالانکہ نہ تو شاہ محمود قریشی غزنوی ہیں اور نہ سندھ کا اقتدار سومناتھ کا مندر ہے مگر اقتدار کا انتظار کرنے والے پیپلز پارٹی مخالف حلقوں کی دلوں میں امید کے باعث ہی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت بیحد کمزور بنیاد رکھتی ہے۔آصف زرداری نے یہ چال بڑی چالاکی سے چلی تھی کہ اس نے سندھ میں کسی مخالف کے لیے جگہ نہیں چھوڑی مگر باہر کا محاذ مضبوط کرتے ہوئے زرداری صاحب نے پارٹی کے اندر کا محاذ بہت کمزور کردیا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سے پیپلز پارٹی کے بہت سارے جیالے بہت ناخوش ہیں۔ وہ کافی وقت سے اپنی حکومت کا انتظار کر رہے ہیں مگر آصف زرداری کی وجہ سے انہیں پارٹی سے بغاوت کی ہمت نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف اگر چاہے تو وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو فوری طور پر گرا سکتی ہے۔کیوں کہ سندھ کے لوگوں کو کچھ نہ دینے والی پی پی حکومت کا تحفظ کرنے کے لیے سندھ کے عوام آگے نہیں آئیں گے۔ اس وقت تو کورونا وائرس کی وجہ سے کوئی جماعت عوام کے قریب جانے کے لیے تیار نہیں ہے مگر کورونا نہ بھی ہوتا تب بھی پیپلز پارٹی کے لیے سندھ کے عوام سڑکوں پر نہ نکلتے۔ اگر سندھ کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کی حمایت میں باہر نکلنا ہوتا تو وہ آصف زرداری کے اندر جانے والے وقت کے دوراں باہر آجاتے۔ حالانکہ اس وقت تو موسم بھی مشکل نہ تھا اور بلاول بھٹو زرداری نے پوری ٹیم کے ساتھ احتجاج کا آغاز نواب شاہ سے کیا تھا مگر سندھ کے لوگوں نے اس طرف دیکھا تک نہیں۔ سندھ کے لوگ اب بھی سراپا احتجاج بننے کے لیے تیار نہیں اگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت گرائی جاتی ہے۔ مگر کیا اس قدم سے تحریک انصاف کو طاقت ملے گی؟ اقتداری حرص کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ سندھ کے محروم وڈیرے تو عرصہ دراز سے آنکھیں بچھائے مگر تحریک انصاف کو چاہئیے کہ وہ سندھ کو سازش سے فتح کرنے کے بجائے محبت سے اپنائے۔ سندھ انصاف کے لیے ایک عرصے سے تڑپ رہا ہے۔ سندھ کو وفاق کی مدد چاہئیے۔