زبان، آدمی کی پردہ پوش ہوتی ہے۔ عِلمیت ہو یا جہالت، دونوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ، زبان ہے۔ سو یہ پردہ دار بھی ہوئی اور پردہ دَر بھی! یہ بھی صحیح ہے کہ ع نگفتہ نباشد کَسی با تو کار بس جہاںزبان کھْلی، آدمی بھی کھْل گیا! وطن ِعزیز میں جو زبانی معرکہ آرائیاں جاری ہیں، قوم کے مذاق کے عین مطابق ہیں۔ بلکہ دنیا کا بھی مزاج، اس سے زیادہ مختلف نہیں رہا۔ پاکستان کی حد تک، یہ مذاق اور مزاج، ایک دو سال میں نہیں بگڑا، اس پر کم از کم چار دہائیاں بیت چکی ہیں۔ دنیا، بقول ِمولانا دریابادی، جوش ِتقاری کی ماری ہوئی ہے۔ سو اس کے سب سے بڑے ذمے دار وہی لوگ ہیں، جن کے ہاتھ میں پہنچ کر، مائیک اول اول ننگی تلوار بنا تھا۔ یہ موضوع بڑا دلچسپ ہے اور طوالت کا متقاضی۔ مگر کیا کِیا جائے، کالم کالم ہی رہے گا، کھتونی نہیں بن سکتا، کھِنچ کر کتاب نہیں بن سکتا۔ چنانچہ چند موٹی اور دو چار باریک باتوں پر اکتفا کی جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو، دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا ذوالفقار علی بھٹو تک اور دوسرا ان کے بعد کا۔ موجودہ سیاسی کھیپ کو بہت سے، بھلے اور بْرے دونوں معاملات میں، بھٹو مرحوم کا فیض پہنچا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب تھے تو پرانے زمانے کے، مگر ذہن جدید رکھتے تھے۔ ذہین تھے، جلد ہی تاڑ گئے کہ اس جذباتی قوم کی باگ سنبھالنی ہے تو کام جذبے سے کم اور جذبات سے زیادہ لینا ہو گا۔ جذبات ابھارتے ابھارتے، یہ بھی انہوں نے جان لیا کہ پبلک ہنسی مذاق پسند کرتی ہے۔ ہنسوڑپن نے داد پائی، تو بگڑ کر اور بڑھ کر فحش گفتاری کی شکل اختیار کر لی۔ یہ نہیںکہ ان سے پہلے بدگفتاری تھی ہی نہیں۔ لیکن جس انداز سے انہوں نے تمسخر، استہزاء اور فْحش گوئی کا آمیختہ تیار کیا اور اسے درجہ ء کمال کو پہنچایا۔ اس پر ع چاہیے، اہل ِسخن میر کو استاد کہیں! بھٹو صاحب کی دْوربینی تھی کہ زمانے کی سمت اور چال، وہ بہت پہلے پہچان گئے اور ایک مْردہ اور مردود شے کو، داد پانے کی غرض سے، دوبارہ زندہ کر دیا۔ بر ِصغیر میں، جن بزرگوں نے فن ِخطابت میں پہلے جھنڈے گاڑے، ان میں سے بیشتر پھبتیوں اور ذاتی حملوں کو روا رکھتے تھے۔ تفصیل بیان نہیںکی جا سکتی، مختصرا، ان دنوں بھی بات، کفر کے فتووں اور ایک دوسرے کے سیاسی اور مذہبی مسلک کو بْرا بھلا کہنے سے لے کر، ذاتیات پر حملے تک پہنچ جاتی تھی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد، یہ فتنہ بڑی حد تک ختم ہو گیا تھا۔ پھر بھٹو صاحب آئے، اور جو کچھ کر گئے، وہ ریکارڈ توڑ اور "چیزی دیگری" تھا! اس مدرسے کے یہ منتہی ہیں، جہاں ع کہ مجنوں لام الف لکھتا ہے دیوار ِدبستاں پر! شورش کاشمیری مرحوم کی شعلہ بیانی کا بڑا شْہرہ ہے۔ ان کے ہاں بھی ایک آدھ فریق کے سوا، زیادہ تر کے خلاف کنایے بازی سے کام لیا گیا۔ ہاں! ایک شاگرد ِرشید ان کے شیخ رشید جیسے البتہ ہوئے ہیں، جو استاد کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مگر وہ بھی شورش سے زیادہ، بھٹو پر پڑے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ "بھٹو اسکول آف تھاٹ" سے متعلق ہیں۔ درحقیقت، موجودہ ذاتیاتی حملوں کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ، سارے کا سارا بھٹو صاحب کو جاتا ہے۔ یہ شکایت البتہ کرنی چاہیے کہ آج کی پھبتیاں، بلاغت سے خالی ہیں۔ چْہلیں، بزرگوں میں بھی چلتی تھیں اور بے طرح چلتی تھیں۔ لیکن وہ فصاحت کے ساتھ ساتھ، بلاغت کا بھی حق ادا کر دیتے تھے۔ جن دنوں مولانا ظفر علی خاں "زمیندار" کے مْدیر تھے، جب تک دَم میں دَم رہا، اس بے مثال روزنامے کو، نثر اور نظم دونوں سے جِلاتے رہے۔ ایک روز انہوں نے کوئی نظم، "بانگ ِصبح" کے عنوان سے لکھی، جس میں اپنے ہم قوموں کو جگانے کے لیے، اذان دینے کی بات کہی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر، "ہمدرد" دِلی کے مْدیر تھے اور سیاسی معاملات میں ان کے حریف۔ "ہمدرد" میں انہوں نے طنز کیا کہ مولانا، کیا مْرغے ہیں، جو صبح صبح بانگ دے رہے ہیں؟ جواب میں مولانا ظفر علی خاں نے ایک اور نظم لکھی، جس کا نام ،غالبا، "گر صحافت میں شرافت کا ہے معیار یہی" تھا۔ دیکھیے کہ مْرغے کی پھبتی کا جواب، وہ کیونکر دیتے ہیں۔ میں نے لکھا تھا "زمیندار" میں اِک تازہ سلام جس سے رِہ رِہ کے ٹپکتا تھا میرا سوز ِدرْوں اس پہ "ہمدرد" کے علامہ و فہامہ مْدیر پا بہ آتش ہوئے اس درجہ، کہ کیا عرض کروں چوٹ نقارہ ء باطل پہ پڑی دِلی میں پردہ ء گوش سے ٹکراتی ہے اس کی دْوں دْوں گالیوں پر اْتر آئے کہ بغیر از ہفوات کبھی آتا نہیں حضرت کی طبیعت میں سکْوں صبح کے وقت، دْعا مانگی تھی میں نے اِک روز کہ میرے درد کی دولت ہو الٰہی افزْوں آپ کو اس پہ، یہ سوجھی ہے اچھوتی پھبتی کہ میں مرغے کی طرح، بانگ دیا کرتا ہوں گر صحافت میں شرافت کا ہے معیار یہی کہ اذاں کو بھی کوئی کہنے لگے کْکڑْوں کْوں کیا عجب ہے، کہ جو سْن لیں کبھی دِلی والے آدمی زاد کو کرتے ہوئے ڈھیچْوں ڈھیچْوں یہ فصاحت اور بلاغت، مفقود ہوئی۔ زمانہ بہت بدل چکا اور واپس ہرگز نہیں پھِر سکتا۔ نئی لفظی جنگیں، انہی ہتھیاروں سے لڑی جائیں گی، جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ اس جنگ میں حملہ آور بھی، ہمیشہ مارا جاتا ہے۔ بْومرنگ کا نام آپ نے سْنا ہو گا۔ اس کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ یہ پھینکنے والے کی طرف پلٹ آتا ہے۔ محال ہے کہ دوسروں پر طعن و تشنیع کرنے والا بھی، خود اس سے بچ رہے۔ بلکہ اس کا خمیازہ، کبھی کبھی آئندہ نسلیں تک بھگتتی ہیں۔ ٹھیک کہا ہے شاعر نے کہ دلوں کو زخم نہ دو حرف ِنامْلائم سے یہ تیر وہ ہے جو لوٹ کے بھی آتا ہے جس استہزائی انداز ِگفتگو کا بلاول کو سامنا ہے، وہ ان کے نانا کے درجے کو ابھی تک نہیں پہنچا۔ اس فْحش کلامی کا نشانہ ان کی والدہ مرحومہ بھی بنی تھیں۔ جو سطحی زبان آج عام ہے، اسے بھٹو صاحب تک پہنچنے میں چند برس اَور لگیں گے۔ فی الحال ع تیرا سا اس میں رنگ ہے، تیری سی بْو تو ہے