لاہور جیسے منفرد شہر سے باقاعدہ متعلق ہوئے مجھے تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ خِشت و سنگ سے ترتیب پاتی اس کافر محبوبہ کے ساتھ آنے جانے، پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے، پھرنے پھرانے کے حوالے سے بے شمار یادیں، خواہشیں، حسرتیں، مسرتیں وابستہ ہیں۔ یہ ایسا طلسماتی شہر ہے جہاں تعلیم، تدریس، کاروبار، فلم، ڈراما یا کس بھی دیگر مقصد کے لیے آنے والے کو بے نیلِ مرام لوٹتے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ 1857ء کے بعد کی دلی میں جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں پھانسی پہ جھول جانے والے مولوی محمد باقر کے جان بچا کے یہاںپہنچنے والے محمد حسین کو اس لاہور نے باقی عمر مولانا آزاد بنا کے رکھا۔ سیالکوٹ کے معمولی سے تاجر شیخ نور محمد کے کبوتر پال بیٹے محمد اقبال کو شاعرِ مشرق کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ پشاور کے ایک وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی سید اسداللہ بخاری کے گھر سے بھاگ بھاگ جانے والے برخوردار احمد شاہ کو پطرس بخاری کا باکمال انبساط عطا کیے رکھا۔ منشی غلام حسن کے میٹرک میں فیل ہو جانے والے سعادت حسن کو ’منٹو‘ کی سج دھج کے ساتھ افسانے کے تخت پر بٹھایا۔ نارووال کے ایک گاؤں کالا قادر کے زمیندار سلطان محمود تتلہ کے صاحب زادے فیض تتلہ کو فیض احمد فیض کے نام سے عالمی شہرت کا حق دار ٹھہرایا۔ اسی طرح فوج سے بھاگ کے ساہیوال میں رہائش پذیر ہو جانے والے محمد منیر کو لاہور آنے پر منیر نیازی بنا کے دم لیا۔ ادبی شخصیات کو پھلجھڑیوں والی روشنی عطا کرنے والے جعفر بلوچ نے اسی تناظر میں کہا تھا: نکلے ساہیوال سے اور جا پہنچے لاہور اس کے بعد اِک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور اس تمہید کا مقصدِ وحید یہ ہے کہ عام کو خاص، ادنیٰ کو اعلیٰ اور شخص کو شخصیت بنانے کی تاثیر اس شہر کی فضاؤں میں ہے۔ اس شہر نے تو ایسے ایسوں کو بھی شہرت کی دولت سے نوازا، جنھوں نے دولت کی شہرت ہی کو زندگی کا کل اثاثہ سمجھ لیا اور ترفع سے تنزل کا سفر اس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ طے کیا۔ یقین جانیں اس عظیم لاہور کو ثقافتی سے کثافتی شہر بنتے ہم نے اپنی بے گناہ آنکھوں سے دیکھا اور بے پناہ دل سے محسوس کیا ہے۔ ایک دو سال قبل اس شہر کی بدلتی صورتِ حال کو مَیں نے ایک قطعے میں اقبال کے ایک شعر میں تھوڑا بہت رد و بدل کر کے سمجھانے کی یوں کوشش کی تھی: کبھی اقبال کا موقف بہت مضبوط ہوتا تھا ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی مگر لاہور کی آلودگی اب ہم سے کہتی ہے ذرا ’کم‘ ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی یقین جانیں اس شہر کو آلودہ کرنے میں بسوں کے شور، ٹرکوں کے زور، رکشوں کی ہلڑ بازی، موٹر سائیکلوں کی سائیلنسرشپ، ہوا کے گرد و غبار اور چمنیوں کے دھویں نے اتنا آلودہ نہیں کیا جتنا کم ظرف لوگوں کے رویوں اور بے بصر افراد کی اندھی دوڑ نے کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب مَیں نے ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کو جوائن کیا تو یہ دیکھ کے حیران ہوا کہ یہاں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات کو یونیورسٹی 100 کا ایک کورس بھی پڑھایا جاتا ہے، جس میں ملک بھر سے نئے آنے والے بھانت بھانت کے نوجوانوں کو یونیورسٹی میں رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب، کورس اور استاد کا انتخاب کرنے کا گُر، کورسز کے ایڈ اینڈ ڈراپ کا وقت اور سلیقہ، میجر مائنر کے روڈ میپ کا قرینہ ، جرمانے سے بچنے اور فیس کی بروقت ادائی کی ادائیں سکھائی، سمجھائی اور بتائی جاتی ہیں۔ تب سے میرے دل میں یہ خیال مچل رہا ہے کہ اس عظیم شہر لاہور میں کسی بھی مقصد سے داخل ہونے والوں کے لیے بھی ’لاہوریات‘نام کی ایک جامعہ ضرور ہونی چاہیے، جس میں ہر کسی کی ضرورت کے مطابق یہاں رہنے، سہنے اور کہنے کا ہنر سکھایا جائے کہ اس شہر میں کیسے، کہاں، کتنا اور کیوں رہنا ہے؟ کس چیز تک رسائی کس طرح سے ممکن ہے، کس طرح کے لوگوں اور عادات سے کیسے بچنا ہے؟ غرض یہ کہ یہاں کھانے پینے، ملنے جلنے، تفریح و تحفظ، خرید و فروخت، صفائی ستھرائی، پیدل، سائیکل، سکوٹر، کار چلانے کے آداب کیا ہونے چاہئیں؟ کورسز کے دوران وہاں اس بات کا بھی تعین کیا جائے کن لوگوں کا یہاں سے فوری اخراج کر کے انھیں چیچو کی ملیاں، کاہنہ کاچھا،ڈُبن پورے، چوہڑکانے،موہنجو ڈارو بھیجنا اشد ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس شہر سے محبت کا حق کس کس طرح ادا ہونا چاہیے؟ اس جامعہ کاچانسلر ہمارے خیال میں جناب حسین احمد شیرازی جیسی نستعلیق شخصیت کو ہونا چاہیے۔ جناب حسین احمد شیرازی جو ہمارے ملک کی دھانسو قسم کی بیوروکریسی سے سال ہا سال متعلق رہے ہیں لیکن ان کو دیکھ کے، ان سے مل کے لگتا ہے کہ محکمے نے انھیں گریجویٹی کے طور پر عجز، انکسار، ایثار، برداشت کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ ان کی شخصیت کا خمیر ظرافت اور شرافت کے اوصاف میں گوندھا گیا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ناطق لکھنوی نے شیرازی صاحب جیسے دیدہ و بیناؤں کے لیے ہی کہا تھا: کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت جس کا جتنا ظرف ہے ، اتنا ہی وہ خاموش ہے شیرازی صاحب کی پہلی خوبی جس سے میرا واسطہ پڑا، وہ ہے بلاواسطہ اور بغیر کسی صلے کی پروا کیے دوسروں کی مدد، خدمت، اپنوں سے محبت کیے اور نبھائے چلے جانا۔ زندگی کی گوناگونی میں انھیں روزانہ کئی طرح کے لوگوں سے نمٹنا ہوتا ہے۔ کبھی کوئی واقف کار اِن سے مدد مانگ رہا ہے، تو کوئی ملازم ان کے موقف کو سمجھنے ہی سے عاری ہے۔ کہیں وکالت کا دھندا ہے تو کہیں ادبی مصروفیات، کہیں ٹی وی ٹاک شو ہے تو کہیں کوئی زمینی یا ہوائی سفر درپیش ہے ۔ ادھر شیرازی صاحب ہیں کہ ہر کام، ہر معاملے کو اس کے وقت اور میرٹ کے مطابق حل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے خواجہ میر درد کے اس شعر کو زیادہ ہی دل پر لے لیا ہے: دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں ان جملہ مصروفیات کے باوجود ، ادب اور بالخصوص مزاح اور اصلاح ان کی پہلی اور سب سے بڑی ترجیح ہے۔ مضمون سے سفرنامے تک، سب اصناف میں ان کا قلم شستگی اور شگفتگی کے ساتھ رواں ہے۔ مزاح میں بھی ان کا نشانہ کوئی نہ کوئی سیاسی، سماجی بوالعجبی ہی ہوتی ہے۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان ان کے دل میں بستے ہیں۔ لاہور آ کے مجھے دو ہی طرح کے اہلِ قلم سے واسطہ پڑا، ایک گوشہ نشین، دوسرے خوشہ چین۔ پہلے نمبر والے اپنے کام پہ توجہ دیتے ہیں اور دوسرے نام پہ۔ پہلے معیار پہ، دوسرے مقدار پہ۔ پہلے خود داری پہ، دوسرے خود نمائی پہ۔ پہلے ’ہیں‘ پہ، دوسرے ’مَیں‘ پہ۔ حسین احمد شیرازی کا شمار بلا شبہ پہلے نمبر کے ادیبوں اور دانش مندوں میں ہوتا ہے۔ اکرم ناصر نے ان دونوں طبقوں کا فرق اس شعر میں نہایت خوب صورتی سے بیان کر دیا ہے: ایک ہم ہیں کہ سمٹے جاتے ہیں خوفِ الزامِ خود نمائی سے لوگ پنجوں کے بَل کھڑے ہو کر اپنے قد کا ثبوت دیتے ہیں