بنگلہ دیش میں اگلے سال کے شروع میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی حسینہ واجد پاکستان سے نفرت کے بیانیے کی آگ کو پھر سے بھڑکا رہی ہیں۔ ایک طرف پاکستان سے محبت کرنے ولے البدر کے رضاکاروں کو پھانسیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے خلاف ’ وار کرائم‘ کا بیانیہ حسینہ واجد کی سرپرستی میں پھیلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں داخلی سیاست کے جھگڑوں نے ہمیں یوں الجھا رکھا ہے کہ ہم صورت حال کی سنگینی کا احساس نہیں کر پا رہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حسینہ واجد جو کر رہی ہیں‘ اس کا تعلق بھلے بنگلہ دیش کے عام انتخابات سے ہو لیکن اس کے اثرات یہیں تک محدود نہیں رہیں گے۔ بنگلہ دیش اور بھارت اس معاملے کو ہر اس سطح تک لے جائیں گے جہاں تک ان کے بس میں ہوا۔ یہ جھوٹا پروپیگنڈا شیخ مجیب نے اپنی سیاسی ضروریات کے پیش نظر ترتیب دیا تھا اور ان کی بیٹی کی سربراہی میں اب پھر اسی پروپیگنڈے کو پاکستان کے خلاف ہتھیار بنایا جا رہا ہے ۔ لازم ہے کہ پاکستان اس معاملے کی سنگینی کو سمجھے اور حقائق پوری قوت کے ساتھ سامنے لائے جائیں۔ شیخ مجیب کا وہ سارا بیانیہ جھوٹ پر مبنی تھا جسے اب حسینہ واجد لے کر چل رہی ہے۔ قتل عام کے الزامات سے شروع کر تے ہیں۔ شیخ مجیب پاکستان سے رہا ہو کر لندن پہنچے تو کہا ’’پاکستان نے 10 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ لندن سے ڈھاکہ جاتے ہوئے دلی میں رکے تو ان پر نیا ’’انکشاف‘‘ ہوا اور کہا ’’پاکستان نے ہمارے 35 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ کچھ دن گزرے تو ایک باقاعدہ بیان جاری فرما دیا کہ پاکستان نے 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور 3 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی‘‘۔ بعد میں یہی اعدادوشمار بنگلہ دیش اور بھارت کا بیانیہ بن گئے اور انہیں دہرایا جاتا رہا۔ سوال یہ ہے اس بے بنیاد پراپیگنڈے کا علم و تحقیق کی دنیا میں کیا کوئی اعتبار ہے۔ اس جھوٹ کو سمجھنے کے لیے بنگلہ دیش اور بھارت سے آنے والی اپنی گواہیاں اور تضادات کافی ہیں۔ بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اطلاعات شیخ عبد العزیز کے مطابق یہ اعدادو شمار غلط ہیں۔ خود جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے ان اعدادو شمار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ 21 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ سے شائع ہونے والے’’پوربو دیش‘‘ کے اداریے میں سوال اٹھایا گیا کہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کتنے لوگ قتل ہوئے؟ پھر ایک ہی رات میں اس اخبار کے محققین کرام اپنی تحقیق پوری کر لیتے ہیں اور اگلے ہی روز اداریے میں دعویٰ فرمایا جاتا ہے کہ 30 لاکھ لوگ قتل کیے گئے۔ یہ فسانہ کہاں سے آیا؟ اس راز سے بھی کسی اور نے نہیں، خود بنگلہ دیش کے پہلے سیکرٹری خارجہ سید انوار الکریم نے پردہ اٹھا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اعدادو شمار مبالغہ آمیزی پر مبنی ہیں اور جب میں نے مجیب سے پوچھا یہ اعدادوشمار کہاں سے لیے تو معلوم ہوا روس کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اخبار ’’پراودا‘‘ نے ایسا لکھا تھا۔ ابھی چند سال قبل24 اپریل 2014 کے دی ہندو میں بھارت کے یہودی جنرل جیکب کی رائے سامنے آئی۔ اس کے مطابق بھی یہ تعداد ہزاروں میں تھی۔ بنگلہ دیش میں ایک معتبر نام عبد المومن چودھری کا رہاہے۔ ان کی کتاب ’’The Myth of Thirty Lakh ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ بات سرا سر جھوٹ ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے مختلف اضلاع کا دورہ کر کے لوگوں سے سوال کیا کہ کیا کسی عورت کی پاکستانی فوجی نے عصمت دری کی۔ ان میں سے ہر فرد نے کہا ’’نہیں کی‘‘۔ انہوں نے کتاب میں ایک اہم سوال اٹھایا کہ شیخ مجیب نے اعدادو شمار کہاں سے لیے اور سروے کس نے کیا؟ گارجین کے ولیم ڈورمند کی ایک رپورٹ 6 جون 1972ء کو شائع ہوئی‘ اس رپورٹ کے مطابق قتل عام کی بات محض ایک افسانہ ہے جسے اچھالا گیا۔ بنگلہ دیش ہی کے ایک محقق نعیم مہیمن کا ایک مقالہ ہے جو’’اکنامک ایند پولیٹیکل ویکلی‘‘ میں 26 جنوری 2008 ء کو شائع ہوا ۔ان کے مطابق یہ جھوٹ بنگلہ دیش میں اس تواتر سے دہرایا گیا کہ اس پر سوال اٹھانا اب ممکن نہیں رہا۔ ہٹلر نے مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودیوں کو 6سال میں قتل کیا۔ 30 لاکھ بنگالی 7 ماہ میں کیسے قتل ہو گئے؟22 مارچ کو آپریشن شروع ہوا اور 16 دسمبر تک کے ایام گن لیں تو شیخ مجیب کے الزام کے مطابق گویا ہر روز 11 ہزار پانچ سو کے قریب بنگالی قتل ہوئے۔ یعنی ہٹلر سے چھ گنا زیادہ قتل عام۔ کیا اس سے بے ہودہ الزام بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی مت بھولیے کہ شیخ مجیب نے 1972ء میں مقتولین آزادی کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے ایک 12 رکنی کمیشن بنایا تھا۔ اسے عبد الرحیم انکوائری کمیشن کہا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر اس کی تشہیر ہی نہیں کی گئی بلکہ شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے تمام عہدیداروں کو تفصیلات اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ جب تحقیق سامنے آئی تو گارجین کی6 جون 1972ء کی رپورٹ کے مطابق صرف دو ہزار بنگالی ایسے لوگ تھے جن کے بارے میں کہا گیا کہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ ولیم ڈورمنڈ کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ پڑھی تو شیخ مجیب غصے سے کانپنے لگ گیا، رپورٹ کو اٹھا کر زمین پر دے مارا اور چلانے لگا کہ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو‘ میں نے تیس لاکھ کہہ دیا تو بس تیس لاکھ ہی ہیں۔ شرمیلا بوس نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ غیر بنگالیوں کی لاشوں کی تصاویر لے کر جنہیں مکتی باہنی نے مارا تھا‘ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ بنگالی ہیں‘ جنہیں پاکستانی فوج نے قتل کیا ہے۔ یہی بات ’’ایسٹ پاکستان ٹریجڈی‘‘ میں پروفیسر شبروک ولیم نے بھی لکھی ہے۔ عصمت دری کے الزام پر بھی شرمیلا بوس کی گواہی پڑھ لیجیے:’’پاکستانی افواج پر عورتوں کی بے حرمتی کا الزام بے بنیاد ہے۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹر ویوز، مکالموں اور تحقیق سے یہ دیکھا ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو نہیں بلکہ صرف مقابلہ کرنے والے جنگجوئوں کو نشانہ بنایا‘‘۔ امریکہ میں بنگلہ دیش کے سابق سفیر شمشیر احمد چودھری ان اعداد و شمار کو شرارت پر مبنی قرار دے چکے ہیں۔ شیخ مجیب نے عصمت دری کی شکار خواتین کے لیے تین ہزار ٹکا کی رقم کا اعلان کر کے بھی دیکھ لیا‘ پھر بھی اسے ناکامی ہوئی۔ چند ہزار خواتین کی فہرست بن سکی جو مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بر بریت کا شکار ہوئیں۔ یاسمین سائیکیا کی کتاب’’وومن، وار اینڈ دی میکنگ آف بنگلہ دیش‘‘ میں لکھا گیا کہ مکتی باہنی اور بھارتی افواج نے بہاری اور غیر بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی۔ یہی بات بینا ڈی کوسٹا نے ’’نیشن بلڈنگ، جنڈر اینڈ وارکرائمزان سائوتھ ایشیا‘‘ میں لکھی ہے۔ یہ وہ گواہیاں ہیں جو پاکستان کے لوگوں کی نہیں ، بنگلہ دیش ، بھارت اور مغربی دنیا کے محققین کی ہیں۔(جاری ہے)