جب قومیں صرف امیدوں پر جیتی ہیں‘عبرت حاصل نہیں کرتیں اور رب کاخوف ترک کر دیتی ہیں تو تباہیاں آتی ہیں ۔جب اقتدار کے ایوانوں میں جھوٹ اور افتراء کی فیکٹریاں لگ جائیں،جب عدالتیںانصاف نہ دے سکیں اور عام شہری کی وقعت نہ رہے۔جب جھوٹ اتنا بولا جائے کہ سچ کا گماں ہو اورخلق خدا سچ تلاشنے کی بجائے جھوٹ کے پیچھے کھڑی ہو جائے۔اللہ کی زمیں ظلم سے بھرنے لگتی ہے،تب جہانوں کا مالک فیصلہ سنا دیتا ہے۔ انسان کبھی تو ذات کے حصار سے باہر نکلے،کبھی سیاست کاری ترک کرے، کبھی نام نہاد اشرافیہ کے مراکز کو چھوڑے ۔ آئے روزکی چخ چخ سے دور ایسا جہاں آباد کرے جہاں صرف انسان کے انجام کا ذکر ہو ۔ حقیقی دنیا کا تذکرہ ہو ‘ دل کی نگاہوں اور ضمیر کی آواز پر انسان لبیک کہے اور اصل زندگی کی فکر کرے ۔ یہ کلاشنکوفوں اور توپوں کی دنیا ‘ یہ میز ائلوں اور بموں کا جہاں ‘ یہ انسان کو انسان کے ذریعے کچلنے ‘ کاٹنے کھانے اور لوٹنے کی تگ و دو ‘ یہ ذلت کے گڑھوں کی طرف بلاتے سیاست کار‘ ہر روز بدلتے خوں رنگ مناظر ، دکھی اور جبر کی ماری خلق خدا چیخ اٹھی ہے۔بس کرواب تو بس! دنیا ظلم سے بھر چکی۔ اس نائو کے کھیون ہار اسے جبر کے ایسے گرداب میں ڈال چکے‘جہاں سے باہر آنے کے تمام راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ایسے میںانسان کبھی اس حصار سے باہر نکلے اور امید و خوف کا دامن پکڑ لے ۔اس کی طرف پلٹے جو سب کچھ کرتا ہے۔یہ بیم ورجا کی دنیا ہے جہاں انسان کو مایوسیاں گھیر لیتی ہیں تو وہ تصور کرتا ہے کہ اب بہتری کے لمحات نہیں آئیں گے اور گاہے انسان خوش گمانی کا شکار ہوتا ہے۔ انسان کا سارا فلسفہ سارا علم ردی کی ٹوکری میں جا گرتا ہے جب وہ سرکار کائناتؐ کے ایک ایک نمونہ کو جانتا ہے ،کہ آپ ﷺ کی ساری زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ بادو باراں کے جھکڑ چلتے تو اس کائنات کی بلند ترین ہستی کے چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا ۔ اضطراب اور بے چینی نمایاں ہونے لگتی ۔ آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے اور تیزی سے ادھر ادھر چلنے لگتے ۔ آپ ﷺ کی زبان مبارک پر دعائیں آجاتیں۔ایک بار جو طوفان اٹھا تو آپ ﷺ پر ایسا خوف طاری ہوا سیدہ عائشہ ؓ بے قرار ہو گئیں ‘پوچھا۔’’ اے اﷲ کے محبوب ﷺ جب بادل آتے ہیں تو لوگ خوشی مناتے ہیں کہ بارش ہوگی اور اس دنیا کو سیراب کرے گی لیکن آپ تو ابر کو دیکھ کر فکر مند ہو جاتے ہیں ۔‘‘ ’’ مجھے کیسے سکون آ سکتا ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے عائشہ ؓ کے سوال کے جواب میں فرمایا ۔ ’’ان بادلوں اور ہوائوں میں رحمت ہے عذاب نہیں کیا تمہیں نہیں معلوم کہ قوم عاد کو ہوائوں کے ذریعے عذاب میں مبتلا کیاگیا ۔ دنیا میں قوم عاد نے خوشی کا ایک پہلو دیکھا ‘امید کو سامنے رکھ کر وہ عبرت اور خوف کو بھول گئی ۔ ایک دفعہ سورج کو گرہن لگا۔ مدینہ منورہ کے کوچہ و بازار سے لوگ نکل آئے ۔ جانے یہ کیسا لمحہ تھا کہ ہر ایک پر خوف طاری ہوگیا۔ بچے بوڑھے نبی مہربان ﷺ کے گرد جمع ہو گئے ۔ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر اضطراب اور خوف کے گہرے آثار رونما ہوئے ۔لوگوں کو کھلے میدان میں جمع کیا اور نماز کسوف ادا فرمائی ۔ آپ ﷺ نے اس قدر طویل قیام فرمایا کہ بیشتر لوگ غش کھا کر گرنے لگے ۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک آنسوئوں سے تر ہوا جاتا تھا اور فرمارہے تھے۔ ’’ اے رب کائنات! کیا آپ نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے میری قوم پر عذاب نازل نہیں فرمائیں گے۔ ایسے لمحے جب کہ یہ قوم گناہوں سے آپ کی پناہ مانگ رہی ہو ۔ ان پر قہر و غضب نازل نہیںہوگا۔‘‘آپ ﷺ نے رخ انور لوگوں کی طرف کیا اور فرمایا ۔’’مسلمانو! جب ایسے منظردیکھو تو گھبرا کر نماز کی طرف لوٹ جایا کرو میں آخرت کے حالات دیکھ رہا ہوں ۔ اگر تمہیں معلوم ہو جائے تو تمہارا ہنسنا کم اور رونا زیادہ ہو جائے ۔ا یسے حالات دیکھو تو نماز پڑھو دعا مانگو اور صدقات دیا کرو۔‘‘کبھی ہم اپنی ذات اور سیاست کے حصار سے باہر نکلیں اور سیاست کاروں کے چنگل سے آزاد ہو کر اپنے مرکز سے جڑنے کا عزم کریں۔ اپنے رب اور اس کے حکم پر لبیک کہیں۔جہنم کی آگ کی طرف لے جانے والوں سے نجات حاصل کرنے کا وقت ہے ۔ بہت دھوکے کھا لیے ‘ پون صدی تک اس قوم پر جاگیرداروں ‘ وڈیروں اور سرمایہ داروں نے مشق کی ۔اس قوم کا غریب جھونپڑی میں ہی رہا ہر چیز بدل گئی غریب کا مقدر ‘ اس ملک کا نظام نہیں بدلا ۔ اب جس سمت انہیں ڈال دیاگیا ہے وہاں سے پلٹنے کا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ مملکت کے مقصد وجود کی طرف پلٹ آئے۔یہ ملک محمد عربی ؐ کے چاہنے والوں کا ہے ۔ سب انہی کو رہنما کہتے ہیں یہ نام سے اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے اس کے حکمران بھی اسلام سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن قوم ایک کے بعد ایک مصیبت اور طوفان میں گھرتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کے دائرے ہمارے گرد تنگ ہوا چاہتے ہیں۔ وہ کون سا حکمران یا سیاست کار ہے جو اس قوم سے کہے کہ اﷲ کے دامن رحمت کی طرف پلٹ جائو وہ خود بھی پلٹے‘ خیالی نعروں کو چھوڑے ‘ عمل کی دنیا کو لوٹے ‘۔عمل کی زندگی میں اترنے کا وقت ہے۔لولے لنگڑے نظام کو بچانے نہیں برباد کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ کا دامن رحمت بہت وسیع ہے۔کاش ہم اس دامن کی طرف بڑھ سکیں ،اپنی زات کے حصار سے نکل سکیں۔ حصار ذات سے نکلوں تو تجھ سے بات کروں تری صفات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں