محمدرمضان نذر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بالاتفاق تاریخِ اسلام کی ایک اہم اور قد آور شخصیت ہیں ۔مؤ رخینِ اسلام کے لئے آپ کی شخصیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا۔اس لیے تمام نے آپ کاتذکرہ کیا ہے ۔ خاندانی شرف ،فضل و کمال ،زہدو تقویٰ ،حق گوئی، شجاعت اور دوسری متعدد خصوصیات کی بناء پر آپ کا شمارا کابر صحابہ میں ہوتا ہے ۔آپ جلیل القدر صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت اسما بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما ہیں جنہیں بارگاہ ِ رسالت مآب سے ’’ ذات النِّطاقَین‘‘ کا خطاب عطا ہوا ۔ حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ 2ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کا اسم گرامی ’’عبداللہ‘‘جب کہ کنیت’’ ابوبکر‘‘ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ کے نانا جناب سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی کنیت پر خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر فرمائی اور کچھ روایات میں دوسری کنیت’’ابوخُبَیب‘‘آپ کے ’’خُبیب‘‘ نامی بیٹے کی نسبت سے منقول ہے ۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے ہاں کچھ عرصے تک کسی بچے کی ولادت نہ ہوئی تو یہودی یہ کہنے لگے کہ ہم نے جادو اور سِحْر کاری سے مسلمانوں کے ہاں بچوں کی ولادت کی بندش کردی ہے ۔اس لیے ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا ۔لیکن جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو صحابہ کرام نے خوشی سے نعرۂ تکبیر بلند کیا ۔(الاصابہ ) حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا ،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنی گود میں لے کراپنا لُعاب مبارک چٹایا ،پھر کھجور کی گھٹی دی اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کی ۔ (مسند امام احمد ) آپ کا سلسلۂ نسب کچھ اس طرح سے ہے :عبداللہ بن زبیربن عوام بن خُوَیلدبن اسد بن عبدالعزیٰ بن قُصَّی۔جناب قُصَّی بن کلاب پر جا کر حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہما کا شجرۂ نسب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شجرۂ مبارکہ سے مل جاتا ہے ۔ننھیال کی طرف سے بھی شجرہ نسب جناب مُرّہ پر جا کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتاہے ۔ خاندانی شرف وکمال کے باعث حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے قالبِ خاکی میں بہت سے اوصاف وکمالات جمع ہو گئے تھے ۔جن کا اظہاران کی زندگی میں پے درپے ہوتارہاجن کا تذکرہ کتب ِتواریخِ اسلام میں مرقوم ہے ،جو سِیَرِصحابہ سے دلچسپی رکھنے والے قاری اور صحابہ کرام کے تذکرہ سننے والوں کے دل موہ لیتا ہے ۔آپ کی خاندانی عظمت و رفعت کے بارے برملا کہاجاسکتاہے گویاکہ آپ کا ددھیال اگر آفتاب ہے توننھیال ماہتاب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد نے ایک موقع پرحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہماکویوں خراج تحسین پیش کیا:’’جہاں تک(عبداللہ رضی اللہ عنہ)کے والد(زبیررضی اللہ عنہ) کا تعلق ہے تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حواری تھے اوررہی بات ان کے ناناکی، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیق غار تھے یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اُن کی والدہ، تو وہ ذات النطاقین ہیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا اور اُن کی خالہ تو وہ اُم المومنین ہیں یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا اوراُن کی پھوپھی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں یعنی خدیجہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی اُن کی دادی تھیں یعنی صفیہ رضی اللہ عنہا ،پھر وہ خود اسلام میں پاکباز ہیں اور قاریٔ قرآن ہیں۔(صحیح بخاری)توحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں مذکورہ بالاعظیم المرتبت ہستیوں جیسے اوصاف و کمالات کا پایا جانا خاندانی شرف اور تربیت وصحبت کا مرہون منت بھی ہے ۔ آپ کو بارگاہ ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست فیضان و استفادہ کا موقع بہت کم ملا ۔کیوں کہ ابھی اُن کی عمر نو دس برس کی تھی کہ سرور ِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری وصال فرما گئے ۔اس کے باوجود کتُب احادیث میں ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد تینتیس (۳۳) ہے جو کہ ان کی زبردست قوت حافظہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچھنے لگوائے اور جو خون نکلا وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دے کر فرمایا کہ اس کو کہیں دبا دو یا کسی ایسی جگہ چُھپا آئو کہ کسی کی نظر نہ پڑے ۔آپ گو کہ کم عمر تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کو بے پناہ محبت تھی آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون مبارک لے لیا اور وہاں سے اوجھل ہو کر پی لیا ۔ واپس آئے تو امام الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ اس خون کہاں کیا ؟انہوں نے عرض کی : ’’میں نے اپنے نزدیک سب سے پوشیدہ جگہ دیکھ کر وہاں رکھ دیا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسا معلوم ہوتا ہے ،تو اس کو پی گیا ۔‘‘ عرض کی :’’ہاں یارسول اللہ!‘‘ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کے بدن میں میرا خون جائے گا ،اس کو جہنم کی آگ نہیں چھوسکتی ۔۔۔(حکایات صحابہ) تعلیم وتربیت میں آپ نے اپنے والدین اور خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے خوب استفادہ کیا ۔یہ بات بھی آپ کی ذہانت اور راسخ العقل ہونے پر دلیل ہے کہ آپ کے لڑکپن میں لوگوں نے پوچھا : ’’ تمہارے نزدیک عالم اور درویش ہونا بہتر ہے یا تو نگر اور جاہل ہونا؟‘‘ توآپ نے جواب دیا : ’’علم کا درویشی کے ساتھ ہونا اچھا ہے کیوں کہ جب میں عالم ہوں گا تو ہوسکتا ہے کہ علم کے سبب مال دار ہو جائوں اور اُس وقت عالم بھی ہوں گا اور مال دار بھی اور جاہل رہا تو ممکن ہے کہ جہالت کے باعث کوئی ایسا کام کروں کہ مال نہ رہے ۔پھر میرے پاس جہالت اور درویشی باقی رہ جائے گے ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے نہایت نڈراور مضبوط قُویٰ کے مالک تھے ۔ جنگ خندق کے وقت اُن کی عمر تقریباً پانچ برس تھی ۔اُن کی عمر کے اکثر بچے جنگ کا منظر دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن ننھے عبداللہ ایک اُونچے ٹیلے پر چڑھ کر نہا یت دلچسپی سے جنگ کے مناظر دیکھا کرتے تھے اور خوف و ہراس اُن کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں بڑائی اور عظمت کے آثار ظاہرتھے ،شجاعت ،بہادری ،حسب و نسب ،عزت وقار، علم وفضل،حق گوئی ،غیر معمولی قوت حافظہ اورشعلہ بیانی جیسے اوصاف سے متصف شخصیت کے حامل تھے ۔خلافت راشدہ کے زمانے میں آپ نے کئی اہم ،مہمات میں حصہ لیا اور انتہائی قابل ستائش خدمات انجام دیں۔آپ نے 73ھ کو حجاج بن یوسف کے مکہ مکرمہ پر حملے کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے ۔ مآخذومراجع:صحیح بخاری ،مسند امام احمد، الاصابہ،اُسد الغابہ،الاستیعاب،سیرت حضرت عبداللہ بن زبیر،حکایات صحابہ