ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کا نام کناز بن حصین بن یربوع بن طریف بن خرشہ بن عبید سعد بن عوف بن کعب بن جلان بن غنم بن غنی بن اعصر بن سعد بن قیس غیلان اور ایک اور روایت کے مطابق کناز آیا ہے ۔حضرت ابو مرثد رضی اللہ عنہ ، حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما عم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیف اور ہم عمر تھے ۔آپ ایک خوش خصال ، وجیہ اور دراز قد شخصیت تھے ۔اپنے علم و عمل ، ورع و تقوی کے باعث پورے قبیلہ میں معروف تھے ۔حضرت مرثد کے والد کناز بن حصین ایک نیک فطرت انسان تھے اور ایک روایت کے مطابق وہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حلیف بھی تھے ۔انہوں نے دعوت اسلام کے ابتدائی زمانے میں ہی اسلام قبول کرلیااور ساتھ ہی ان کا خاندان بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو ااور آپ کے صاحبزادے حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔اور اس طرح یہ دونوں باپ بیٹا السابقون الاولون کی مقدس صف میں شامل ہوگئے ۔ہجرت کے بعد جب رشتہ مواخات قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہو اتو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو مرثد رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت عبادہ بن صامت انصاری کا دینی بھائی بنادیا۔حضرت ابو مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاتم النبین سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی اصحاب میں شامل تھے ۔آپ اپنے پورے خاندان سمیت بارگاہ رسالت سے فیض یاب ہوئے ۔اور تمام عمر خاتم النبین آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی سربلندی کے لئے مصروف عمل رہے ۔آپ نے غزوہ بدر میں اپنے بیٹے کے ہمراہ شرکت کی اور داد شجاعت دی۔اسی طرح آپ غزوہ احد میں بھی شریک رہے ۔دور رسالت میں سرا نجام دی گئی تمام مہمات میں آپ نے بھرپور شرکت کی اورخاتم النبین سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصا ل کے بعد آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے ۔ فتنہ ارتداد کی سرکوبی کے لئے آپ نے اسلامی لشکر میں بھرپور خدمات سرانجام دیں۔لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور دور صدیقی میں ہی 66سال کی عمر میں واصل الی الحق ہو گئے ۔آپ کے صاحبزادے حضرت مرثد رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جن کے حق میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ آنے والی سطور میں ہو گا۔ حضر ت بن ابی مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ: حضرت مرثد رضی اللہ عنہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانباز سپاہی تھے ۔سیرت کی تمام مستند کتابوں میں یہ بات تحریر ہے کہ حضرت مرثد رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لئے کئی مرتبہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور ہر مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کے مستحق ٹھرے ۔حضرت مرثد بن ابی مرثد رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قبیلہ بنو مضر یا قیس بن عیلان سے تھا۔اور ان کا خاندان مکہ مکرمہ میں مختلف روایات کے مطابق بنو ہاشم یا بنو عبدالمطلب کا حلیف تھا۔ حضرت مرثد رضی اللہ تعالی عنہ اپنے قبیلہ کے نہایت بہادر، جنگجو،خوش لباس،اور خوش شکل نوجوان تھے ۔وہ صحیح معنوں میں مردانہ وجاہت کا ایک مکمل نمونہ تھے ۔اسلام قبول کرنے سے قبل مکہ مکرمہ کی ایک نہایت حسین اور خوش خصال عورت عناق سے راہ و رسم رکھتے تھے ۔لیکن قبول اسلام کے ساتھ ہی انہوں نے تمام سابقہ تعلقات کو منسوخ فرما دیا اور اسلام کے سچے اور جانباز مجاہد کے طور پر زندگی گزارنے لگے ۔ہجرت مدینہ کے چند ماہ بعد سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مہاجرین وانصار کے مابین رشتہ مواخات قائم فرمایا تو جب کہ حضرت مرثد رضی اللہ تعالی عنہ کی مواخات حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت اوس بن صامت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمادی۔ہجرت کے ابتدائی دو تین سالوں میں آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق حضرت مرثد رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اسیر مسلمان بھائیوں کو چھڑوانے کے لیے بڑی جدوجہد فرمائی۔اور اس مقصد کے لیے کئی بار مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ۔ایک مرتبہ اسی غرض سے مکہ مکرمہ پہنچے ۔آپ گلی سے گزر رہے تھے ۔کہ چاندنی رات میں عناق نے آپ کو پہچان لیا۔ اس نے آواز دی۔ آواز سن کر وہ رک گئے ۔عناق نے انہیں گرم جوشی سے خوش آمدید کہااور شب باشی کی دعوت دی۔حضرت مرثد رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اب میری نگاہوں میں جلوہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بس چکا ہے ۔میں نے اپنی زندگی کے تمام فیصلے شریعت محمدی کے تابع کر دیے ہیں۔لہٰذا اب میں تمہارے ساتھ تعلقات استوار نہیں کر سکتا۔ عناق نے بہت منتیں کیں۔اپنے ناز و انداز سے ان کو بہلانے کی کوشش کی۔لیکن رسول اللہ کے سچے غلام پر اس کے سب وار بے کار گئے ۔عناق نے حضرت مرثد کی بے رخی دیکھ کر ان پر چلانا شروع کر دیا۔شور ڈالا مکہ کے قریشی اکٹھے ہوگئے ۔ آپ کی تلاش شروع کر دی۔حضرت مرثد نے ایک محفوظ غار میں پناہ لی اور پھر بخریت مطلوبہ قیدی کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔پھر التماس کی۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں عناق سے نکاح کر لوں۔حضور نے توقف فرمایا۔کچھ دیر کے بعد یہ آیت طیبہ نازل ہوئی۔ ترجمہ:زانی شخص کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کر لے ، اسی طرح زانیہ کے ساتھ زانی یا مشرک کو نکاح کرنا ہے مسلمانوں پر ان نکاح حرام کیا گیا۔(سورۃ نور:آیت :3)اس طرح حضرت مرثد بھی ان خوش نصیب صاحبہ کرام میں شامل ہوگئے گئے جن کے حق میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئی۔۔حضرت مرثد نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سر تسلیم خم کیا۔ غزوات میں کردار: ہجرت کے بعد جب غزوات کا آغاز ہوا تو حضرت مرثد رضی اللہ تعالی سب سے پہلے غزوہ بدر میں ذوق اور شوق کے ساتھ شریک ہوئے اور خوب داد شجاعت دی ۔مستدرک حاکم کی ایک روایت کے مطابق وہ اس غزوہ میں سبل نامی گھوڑے پر سوار تھے ۔تین ہجری میں غزوہ احد پیش آیا تو حضرت مرثد رضی اللہ تعالی اس میں بھی بڑے شوق سے شریک ہوئے ۔صفر 3 ھجری بنو عضل اور بنو قارہ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارے ساتھ چند اہل علم صحابہ کو بھیجیں جو ہمیں دین سکھائیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست پر صحابہ کرام کی جماعت تیار کی جس میں حضرت مرثد رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے ۔اس جماعت کے اراکین کی تعداد دس بیان کی گئی ہے ۔صحابہ کرام کی جماعت جب مقام رجیع پر پہنچی تو عضل اور قارہ کے لوگوں نے غداری کی۔دو سو سے زائد تیر اندازوں نے اس مختصر جماعت پر ہلہ بول دیا۔ حضرت مرثد،حضرت عاصم بن ثابت،اور حضرت خالد بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنھم مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔آپ ہجرت کے تیسرے سال شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے ۔آپ کے فضل و کمال کے جوہر ابھی کھلنے باقی تھے لیکن وہ بہت جلد اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ۔حضرت مرثد کے والد حضرت ابو مرثد رضی اللہ تعالی عنہ نے جوان فرزند کی شہادت پر کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔جب تک وہ بقید حیات رہے تمام غزوات میں شامل ہوتے رہے ۔حضرت ابو مرثد رضی اللہ عنہ نے 12ھجری میں 66برس کی عمر میں وفات پائی۔ ماخذ و مراجع۔اسد الغابہ