حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ افاضل صحابہ کرام میں سے تھے ۔ آپ کا نام حارثہ اور آپ کے والد کا نام نعمان بن نفیع تھا۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی ۔ آپ کا قبیلہ بنونجار تھا ۔اما م نسائی نے آپ کو اصحاب صفہ میں شمار کیا ۔امام ذہبی علیہ الرحمۃ حارثہ کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں! شہدبدراً والمشاہد، ولانعلم لہ روایۃ وکان دیّنا خیراً،برّاً بأمہ: ترجمہ: حارثہ غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں شریک رہے ہیں ان سے کوئی روایت مروی نہیں ہے ، یہ بہت دیندار، پارسا اور اپنی ماں کی فرماں برداراولاد ہیں۔ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشادفرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں قرأت کی آوازسنی جب میں نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہیں؟تو فرشتوں نے کہا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والے صحابی ہیں۔ (مشکوٰۃ،ج2،ص 419باب البروالصلۃ) اورایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا کہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسّی آدمیوں میں سے ایک ہیں تو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دریافت کیا کہ اے جبریل! علیہ السلام اس کا کیا مطلب ہے کہ یہ اسّی آدمیوں میں سے ایک ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ جنگ حنین کے دن کچھ دیر کے لیے تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم شکست کھا کر پیچھے ہٹ جائیں گے مگر اسّی آدمی پہاڑ کی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایسی حالت میں ڈٹے رہیں گے جب کہ کفار کی طرف سے تیروں کی بارش ہورہی ہوگی ان اسّی بہادروں میں سے ایک ’حارثہ بن النعمان‘ہیں۔ (اسدالغابہ،ج1،ص358) یہ آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے اس لئے ہر وقت اپنے مصلیٰ پر بیٹھے رہتے تھے اوراپنے مصلیٰ کے پاس ایک ٹوکری میں کھجور بھرکر رکھتے تھے اوراپنے مصلے سے حجرہ کے دروازے تک ایک دھاگاباندھے ہوئے تھے جب مسکین دروازہ پر آکر سلام کرتا تو اسی دھاگامیں کھجوریں باندھ کر دھاگا کھینچ لیتے اورکھجوریں مسکین کے پاس پہنچ جایا کرتی تھیں ان کے گھر والوں نے کہا کہ اس تکلف وتکلیف کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ حکم دیں توگھر والے کھجوریں مسکین کو دے دیا کریں گے ۔آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا:مُنَاوَلَۃُ الْمِسْکِیْنِ تَقِیْ مِیْتَۃَ السُّوْئِ (یعنی مسکین کواپنے ہاتھ سے دینابری موت سے بچاتاہے ۔) (اسدالغابہ،ج1،ص359) انھوں نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا۔ان کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پاس سے گزراتو میں نے دیکھا کہ ایک شخص آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے سلام کیا اوروہاں سے چل دیاجب میں واپس آیا تو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اے حارثہ!تم نے اس شخص کو دیکھا جو میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ وہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے اور انھوں نے تمھارے سلام کا جواب بھی دیا تھا۔(اکمال فی اسماء الرجال،ص561) عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوا اور قرآن کریم پڑھنے کی آواز سنی، تو میں نے دریافت کیا یہ کون ہے ؟ جواب ملا: یہ خوش بخت حارثہ بن نعمان ہے ! یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کذلک البّر، کذلک البّر،وکان ابّرالناس بأمہ‘‘ واقعی نیکی ایسی ہی ہوتی ہے ، نیکی ایسی ہی ہوتی ہے یعنی نیکی کا پھل ایساہی ہوتاہے ، حارثہ بن نعمان اپنی والدہ کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرنے والا ہے ۔ حارثہ اُن 80 صحابہ کرام میں ہیں جو غزوہ حنین میں جمے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ نہیں چھوڑا۔ حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کا وصال 51ھ میں ہوا۔