اللہ رب العزت نے گروہِ انبیا علیہھم السلام کے بعداس کرۂ ارضی پرکچھ ایسے نفوس پیدافرمائے ہیں جن کی زندگی اورکردارضلالت وگمراہی اوربے راہ روی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لئے چراغ ِراہ ِہدایت ہے ۔طالبانِ معرفت وحقیقت اور راہیانِ سلوک کیلئے اس راہ پرگامزن رہنے کیلئے باعثِ ثبات ہے ۔ہمارے ممدوح حضرت سخی سرور رحمۃ اللہ بھی بلاشبہ ایسے ہی اوصاف کی حامل شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کا شمار نامور اوراکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے ۔آپ کا اسم گرامی ’سید احمدسلطان‘ تھا۔بے حد سخاوت اور دریادلی کی وجہ سے ’سخی سرور‘کے نام سے معروف ہوئے ۔آپ کی ولادت 524ھ میں ہوئی ۔آپ کا شجرۂ نسب امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے ۔ آپ کے والد گرامی سید زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ بائیس سال تک مدینہ منورہ میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ انور کی خدمت پر مامور رہے ۔ ایک رات خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شاہ کوٹ پنجاب تشریف لائے اورمستقل رہائش اختیار فرمائی۔آپ بھی اپنے والدگرامی کے ہمراہ تھے ۔ آپ بچپن ہی سے بہت ذہین وفطین واقع ہوئے ۔ اپنے والد گرامی سے تعلیم کا آغاز کیا، والد گرامی کے وصال کے بعد عراق تشریف لے گئے اور مختلف سلاسل کے شیوخ کی خدمت میں رہ کرشریعت وطریقت میں کمال حاصل کیا۔آپ انتہائی عبادت گزار ،متقی وپارسا شخصیت کے مالک تھے ۔عراق سے واپسی پر آپ نے ہندوستان میں متعدد مقامات پر عارضی سکونت اختیار کی اوربالآخر ڈیرہ غازی خان میں کوہ سلیمان کے دامن میں مستقل رہائش اختیار کی۔ آپ اکثر اوقات عبادت وریاضت میں مصروف رہتے ہزاروں غیر مسلموں نے آپ کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا۔حضرت سخی سرورسلطان رحمۃ اللہ علیہ کا شماران جلیل القدر ہستیوں سے ہے جنہوں نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج واشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ آپ ایک صاحبِ کشف وکرامت بزرگ تھے ۔ آپ کے ناناجان ایک زمیندارتھے ۔ ان کے انتقال کے بعدآپ کی والدۂ ماجدہ کووراثت میں کافی جائیداد ملی۔آپ کے حصے میں آنے والی زمین بظاہرخراب وبنجرتھی۔ مگرآپ نے صبروشکراورتوکل علی اللہ کے ساتھ والدہ ماجدہ کے حکم سے اسی خراب وبنجرزمین پرکاشت کاری کردی اورنتائج علام الغیوب ذات پرچھوڑ دیئے جب فصل پک کر تیار ہو گئی توفضل الٰہی سے دوسروں کی بہ نسبت آپ کی فصل بہت زیادہ ہوئی ۔(تذکرہ اولیائے عرب وعجم340) آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی بلند مقام مرتبے کے حامل تھے ، ہوا یوں کہ ایک مرتبہ دہلی شہرمیں ایک ایسی وبا پھیلی جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس وباکاشکارہوکرلقمۂ اجل بننے لگے ۔دہلی میں ایک گھرانہ ایسابھی تھاجس کے افرادآپ سے بے پناہ محبت وعقیدت رکھتے تھے ۔وہ بھی اس وبائی مرض کی زد میں تھے ۔چنانچہ اس گھرکاسربراہ سینکڑوں میل سفرطے کرنے کے بعدآپ کی خدمت میں حاضرہوااور مدعابیان کیا ۔آپ نے اسے تھوڑاسانمک دیااورفرمایا: ’’گھرکے نمک میں ملاکر استعمال کرو۔‘‘چنا نچہ اس شخص نے گھرجاکر تعمیل حکم کی تواللہ تعالیٰ نے اس گھرانے کے متا ٔثرہ افراد کو شفادی اور اس گھرانے کو اس وباسے محفوظ رکھا۔(تذکرہ اولیائے عرب وعجم،صفحہ339) اسی طرح ایک مرتبہ سوہدرہ کی حکومت کے ایک’عمربخش ‘نامی افسرسخت بیمارہوگئے ۔ان کے اہل خانہ نے علاج معالجہ کی بہت کوششیں کیں لیکن وہ شفایاب نہ ہوسکے ۔آخرکاروہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اوراس کی صحتیابی کیلئے دعاکی درخواست کرنے لگے ۔ابھی وہ اپنی پریشانی بتاہی رہے تھے کہ آپ نے زمین سے تھوڑی سی مٹی اُٹھاکرانھیں دی اورفرمایا:’’اس مٹی کی ایک خوراک مریض کوکھلادو!اہل خانہ نے وہ مٹی لے جاکر’عمربخش ‘کوکھلائی۔مٹی کھانے کے بعدوہ حیرت انگیزطورپرفوراًصحت یاب ہوگئے اوراسی دن سے روزمرہ کے کام بھی شروع کردیئے ۔(خزینۃ الاصفیا191) ایک دن آپ خلوت نشینی میں تھے ۔آپ کو وضوکرنے کی حاجت پیش ہوئی مگرآس پاس وضوکے لئے پانی موجود نہ تھا۔چنانچہ آپ نے اپناعصازمین پرماراتووہاں سے پانی کاچشمہ جاری ہوگیا۔آپ نے لکڑی کاایک کھونٹازمین میں ٹھونک دیاکچھ دنوں بعدوہ لکڑی خودبخودسرسبزہوگئی۔جہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نمازپڑھتے تھے ۔وہاں لوگوں نے مسجد تعمیرکرادی۔(خزینۃ الاصفیا، صفحہ192) آپ نے رجب المرجب 577ہجری کوترپن سال کی عمرمیں اس فانی دنیا کوخیرآبادکہا اور داعی ِاجل کی پکار پرلبیک کہہ کرخالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کامزارڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب پاکستان میں مرجع خلائق ہے ۔مشہورمغل بادشاہ ظہیرالدین بابرنے آپ کے مزارمبارک کی تزئین وآرائش پرلاکھوں روپیہ خرچ کیااوراسے تعمیرکرواکراپنے لئے خوش بختی کے دروازے کھولے ۔ آپ کے وصال کے بعد بھی لوگ آپ سے فیض پاتے ہیں اورآپ کے وسیلے سے بارگاہ ِ قدس میں حاجت برآری کیلئے التجائیں بھی کرتے ہیں جو کہ مقبول ہوتی ہیں۔روایت کیا جاتا ہے کہ ایک شخص قندھارسے ملتان جارہاتھاکہ راستے میں پائوں پھسلنے سے اس کااونٹ لنگڑاہوگیا۔خوش قسمتی سے آپ کامزارمبارک قریب تھالہذاوہ اپنی التجالے کرمزارمبارک پرحاضرہوااور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض گزار ہواتواللہ تعالیٰ نے اس کی یہ مشکل آسان فرمادی۔(تذکرہ اولیائے عرب وعجم ،صفحہ353) اس وقت دنیا بھر میں آپ کے لاکھوں معتقدین ہیں اورآپ کامزارمبارک ڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب میں آج بھی مرجع خلائق ہے ۔ جہاں لوگ دوردرازسے سفرکرکے مزاراقدس پرحاضرہوکرآپ کے روحانی فیوض وبرکات اوررحمتِ الٰہی سے اپنے لئے قلبی وروحانی تسکین کا سامان کرتے ہیں کیوں ارشادباری تعالیٰ ہے :اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ:بیشک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے ، (الاعراف:56) مآخذ: خزینۃ الاصفیا،تذکرہ اولیائے عرب و عجم،تذکرہ اولیائے پاکستان