انگریزوں نے برصغیر پر غاصبانہ قبضے کیلئے ایک طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے لوگوں کی زمینیں ان کی مرضی کے بغیر زبردستی چھیننے کیلیے باقاعدہ "قانونی طریقہ" گھڑ لیا۔ ہمارے ہاں اس وقت "قانونِ حصولِ اراضی" (Land Acquisition Act ) کے عنوان سے جو قانون رائج ہے، وہ 1894ء میں جاری کیا گیا اور یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے غاصبانہ قبضے کیلئے وضع کیے گئے طریقے پر ہی قائم ہے۔ ملتا جلتا قانون انگریزوں نے براعظم امریکا میں زمینوں پر قبضے کیلئے بھی بنایا تھا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قانون کی رو سے "عوامی مقصد کیلئے بھی" زمین جبراً حاصل کی جاسکتی ہے اور "کسی کمپنی کیلئے" بھی۔ گویا عوامی مقصد اور کمپنی کو برابر قرار دیا گیا، یا یوں کہیے کہ قانون نے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ کمپنی کیلئے زمین حاصل کی گئی تو گویا عوامی مقصد کیلئے ہی حاصل کی گئی! ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور دیکھیے کہ مختلف کمپنیوں کیلئے کیسے لوگوں سے زمینیں چھینی گئی ہیں اور چھینی جارہی ہیں۔ اگر آپ کسی کی زمین چھیننا چاہتے ہیں تو اس کیلئے خود بندوق لے کر قبضہ کرنے کے بجائے آسان طریقہ اختیار کیجیے کہ کمپنی بنا کر سرکار کی طاقت کے ذریعے وہی زمین حاصل کرلیجیے۔ بس اس مقصد کیلئے اتنا کرنا ہوگا کہ متعلقہ کلکٹر اور کمشنر کو ساتھ ملالیجیے۔ متعلقہ ریونیو آفیسر کا کام یہ ہوگا کہ وہ سرٹیفیکیٹ دے کہ یہ زمین عوامی مقصد کیلئے، یا کمپنی کیلئے، درکار ہے۔ اس کے بعد اگر زمین کا مالک اسے بیچنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اس سے یہ زمین سرکار کی طاقت کے ذریعے لی جائے گی۔ ہاں، اسے اس زمین کا معاوضہ ضرور ادا کیا جائے گا، لیکن معاوضہ کتنا ہوگا ؟ اس کا تعین وہی ریونیو آفیسر کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کرسکیں گے کہ اس کی متعین کردہ قیمت یا معاوضے کے خلاف کمشنر کے پاس، یعنی اسی کے باس کے پاس، چلے جائیں، اور اس باس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔کھیل ختم، پیسہ ہضم! یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کوئی پبلک کمپنی ہو، جیسے ریلوے کارپوریشن، یا پی ٹی سی ایل وغیرہ، بلکہ یہی کچھ کسی پرائیویٹ کمپنی کیلئے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ "کمپنی" ایک "فرضی شخص" ہے اور عرفِ عام میں جنہیں کمپنی کے مالکان کہا جاتا ہے، قانون کی نظر میں وہ کمپنی کے مالک نہیں ہوتے بلکہ کمپنی اپنے اثاثوں کی خود مالک ہوتی ہے اور اپنے ذمے عائد ہونے والے قرضوں کیلئے بھی کمپنی خود ہی ذمہ دار ہوتی ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹرز، یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین وغیرہ، یا شیئر ہولڈرز میں سے کوئی بھی کمپنی کے قرضوں کیلئے کسی قرض خواہ کے سامنے ذمہ دار نہیں ہوتا کیونکہ ان کے اور قرض خواہوں کے درمیان کمپنی کی فرضی شخصیت کا پردہ حائل ہوتا ہے۔ البتہ فراڈ یا کوئی سنگین جرم ہو تو قانون فرضی شخصیت کا یہ پردہ کھینچ لیتا ہے، یا اس میں چھید کرلیتا ہے، اور پھر پردے کے پیچھے چھپے لوگ ذمہ دار قرار پاتے ہیں، لیکن ایسا بہت ہی شاذ ونادر ہوتا ہے۔ اب سوچیے کہ ایک حقیقی شخص، انسان، سے اس کی زمین ایک فرضی شخص، کمپنی، کیلئے چھین لی جاتی ہے اوراسے انگریزی محاورے کے مطابق "مونگ پھلیاں" دے کر زبردستی خاموش کردیا جاتا ہے۔Analysis of Law Economic کے نظریے کے علمبردار مشہور امریکی جج اور قانونی فلسفی Richard Posner نے دکھایا ہے کہ کمپنی سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں میں موجود ہے اور اس کا مقصد چند سرمایہ داروں کیلئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرنا اور ان کے قرضوں کی ذمہ داری دوسروں کی طرف منتقل کرنا ہوتا ہے، خواہ وہ ان سرمایہ داروں کے ساتھ تعلق میں ہنسی خوشی شامل ہوئے ہوں یا انھیں مجبور کیا گیا ہو۔ کسی کو شبہ ہو تو ذرا ایسٹ انڈیا کمپنی، جی ہاں"کمپنی"، کی تاریخ دیکھ لے کہ اس نے کیسے اس طرح کے قوانین اور بندوبست کے ذریعے بنگال اور دیگر علاقوں میں لوگوں کو زمینوں سے محروم کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست اور انگریزوں کے 1894ء میں قائم کیے گئے بندوبست میں فرق کیا ہے؟ آزادی حاصل کرنے، اپنا وفاقی، جمہوری اور اسلامی دستور بنانے سے نظام میں تبدیلی کیا آئی ہے، تصورات کیسے بدل گئے ہیں، اگر ہماری عدالتیں اب بھی اس قانون کی تعبیر اسی طرح کررہی ہیں جیسے آزادی حاصل کرنے اور دستور بنانے سے قبل کرتی تھیں؟ تنہا یہی قانون نہیں، سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے قوانین ہیں جو انگریزوں کے دور سے اس خطے میں رائج ہیں۔ ان قوانین کو "قانونِ آزادیِ ہند، 1947ء " کے تحت انگریزوں کے جانے کے بعد، اور یہاں بھارت و پاکستان نامی دو ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد ، جاری رکھا گیا۔بھارت اور پاکستان کی مقننہ کو یہ اختیار تھا کہ وہ ان قوانین کو ختم کردیتی یا ان میں ترمیم کرتی۔ چنانچہ بہت سارے قوانین میں بہت سی ترامیم کی گئی ہیں اور کئی قوانین سرے سے منسوخ بھی کردیے گئے ہیں۔ تاہم یہ کام بہت سست روی کے ساتھ ہوا ہے اور بالعموم یہ فرض کیا گیا کہ ان قوانین کے جاری رکھنے میں ہی بہتری ہے۔ ایک اہم کام البتہ یہ ہوا کہ بھارت نے نسبتاً جلد اور ہم نے نسبتاً تاخیر سے ہی سہی، لیکن ایک دستور وضع کرلیا۔ دستو ر سے مراد وہ قانون ہے جس پر ملک کا نظام چلایا جاتا ہے اور ملک کے تمام قوانین پر اسے بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ تمام رائج الوقت قوانین کی صحت کیلئے یہ ضروری قرار پایا کہ وہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہ ہوں۔ اس مقصد کیلئے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ یہ تعین کریں کہ کوئی قانون دستور میں مذکور ان بنیادی حقوق سے متصادم ہے یا نہیں؟ پھر ہمارے دستور میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ رائج الوقت تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اور آئندہ کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جائے گی جو اسلامی احکام سے متصادم ہو۔ اس مقصد کیلئے ابتدا میں ایک کمیشن اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کی گئی کہ وہ اس ضمن میں پارلیمان اور صوبائی مقننہ کو تجاویز اور سفارشات دے۔ بعد میں وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ کسی قانون کو اسلامی احکام سے متصادم قرار دے تو تصادم کی حد تک وہ قانون کالعدم ہوجائے گا۔ یوں ملک میں پہلے سے رائج قوانین کی صحت کیلئے دو ٹسٹ ضروری ہوئے: ایک یہ کہ وہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہ ہوں؛ اور دوسرا یہ کہ وہ اسلامی احکام سے متصادم نہ ہوں۔ پہلے امر کا جائزہ لینے کا اختیار ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے پاس ہے جبکہ دوسرے امر کا جائزہ لینے کا اختیار وفاقی شرعی عدالت کے پاس ہے۔ ضروری تھا کہ آزادی سے قبل کے قوانین کو یا تو عدالتی تعبیر کے ذریعے ہماری دستوری اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا، یا اگر یہ ہم آہنگی ممکن نہیں تھی تو پھر ان کو منسوخ کردیا جاتا۔ تاہم بدقسمتی سے ابھی تک ایسا ہوا نہیں!