پرانے زمانے کی بات ہے کہتے ہیں ایک ملک کے بادشاہ کا آخری وقت آگیا،سارے وزیر مشیر بادشاہ کے آس پاس جمع ہوگئے وہ سب متفکر تھے کہ اب ملک کیسے چلے گا ،بادشاہ کون ہوگا کہ بادشاہ کی کوئی اولاد نہ تھی سب اسی سوچ میں تھے کہ بادشاہ سلامت نے آخری ہچکی لی اور چل بسے ،بادشاہ کی آخری رسومات کے بعد سب سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے ،طے یہ ہوا کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی جو بھی شخص شہر پناہ میں داخل ہوگا وہ بادشاہ ہوگا ،دوسرے دن سارے وزیر مشیر اپنے بادشاہ کے استقبال کے لئے شہر پناہ کے صدر دروازے پر کھڑے ہوگئے ادھر سورج نے آنکھ کھولی ادھر شہر پناہ کا دروازہ کھلااور سامنے ایک بھکاری کشکول لاٹھی لئے نظرآیا ،بھکاری نے صبح سویرے اپنے سامنے خلعت فاخرہ پہنے خواص کو دیکھا تو اسکی باچھیں کھل گئیں کہ آج دیہاڑی اچھی لگے گی اس نے جھٹ سے کشکول آگے کرکے صدا لگادی جواب میں لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور کہا کہ آج سے آپ خیرات مانگیں گے نہیں ،بلکہ کریں گے۔ آپ ہمارے بادشاہ سلامت ہیں ، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بھکاری کے سر پر ہیروںسے جڑا تاج رکھ دیا گیااور کورنش بجا لاتے ہوئے کہا گیاکہ بادشاہ سلامت ہمارے ساتھ چلئے،بھکاری نے تاج اتار کر سر کو جھٹکا اور کہا پہلے یہ بتاؤ کہ حلوہ ملے گا ؟ وزیر اعظم نے کہا حضور ایک دن نہیں ہر روز ملے گا ،بس آپ ساتھ چلیں ،بھکاری کو جلوس کی شکل میں محل لایا گیا نہلا دھلا کر شاہی لباس پہنا کر دربار لگا دیا گیا ،درباریوں نے عرض کیا بادشاہ سلامت ہم سب آپکے حکم کے منتظر ہیں ،فرمایئے،بادشاہ نے جھٹ سے کہا حلوہ پکاؤ کھاؤ اور کھلاؤ،حکم کی تعمیل ہوئی دوسرے دن بادشاہ نے پھر یہی حکم دے دیا اور پھر یہ معمول بن گیا بادشاہ کے سامنے کوئی بات رکھی جاتی تو وہ کہتا حلوہ پکاؤ کھاؤ اور کھلاؤ، حلوہ خوربادشاہ سلامت کی’’ فہم و فراست ‘‘کے قصے جلد ہی سرحد پار بھی پہنچ گئے پڑوسی ملک کا بادشاہ تو پہلے ہی نظریں جما ئے بیٹھا تھااس نے سپاہ کو تیاری کا حکم دے دیا، جاسوسوں نے اپنے وزیر کو اطلاع دی اور وزیرنے بادشاہ کو بتایا ،بادشاہ نے سنا ،ہنکارہ بھرا ،اور کہا حلوہ پکاؤ کھاؤ اور کھلاؤ۔۔۔حکم کی تعمیل ہوئی جاسوسوں نے پھر اطلا ع دی کہ دشمن ملک کی فوج چل پڑی ہے ،بادشاہ نے سناتو پھر حلوے کی دیگیں چڑھوا دیں ،دشمن ملک شہر پناہ تک آگیا ،بادشاہ کو بتایا گیااس نے ایک کان سے سنا دوسرے سے اڑادیا اورکہا کہ حلوہ پکاؤ کھاؤ اور کھلاؤ۔۔۔حلوہ پکتا رہا دشمن کی فوج پیش قدمی کرتی رہی یہاں تک محل کے دروازے تک آگئی ،وزیر وں نے رونی صورت بنا کر اطلاع دی بادشاہ نے سنا تو پھر حلوہ پکانے کا حکم دے دیاادھر حلوہ کی دیگ تیارہوئی ادھر دشمن فوج نے محل کا دروازہ توڑ دیا بادشاہ کو بتیا گیا کہ ظل سبحانی وہ تومحل میں بھی گھس آئے اب کیا کریں۔بادشاہ نے یہ سنا تو تخت سے اترا تاج اتار کر ایک طرف رکھا اورکہاتم جانو اور تمہارادشمن جانے مجھے تو میرا کشکول دو میں توچلا اور ہاں اس میں زرا حلوہ بھر دینا بھاگ لگے رہن ۔۔۔ اپنے ملک میں بھی طویل عرصے سے ایسے حلوہ خوروں کی حکومت ہی چلی آرہی ہے،جس شعبے کی جانب رخ کیا جائے کوئی نہ کوئی حلوہ خور براجمان دکھائی دیتا ہے،مقننہ کا حال یہ ہے ایک ہی چھت تلے حزب اقتدار اختلاف ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روا دار نہیں،قانو ن سازی مذاق بن چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ ایک رات صدر مملکت کے دستخط سے نیب کا ترمیمی آرڈیننس جاری ہوتا ہے او ر ا بھی اسکی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی کہ ایوان صدر اپنے حکم میں ترمیم کرکے نئی چڑیابٹھا دیتے ہیں کہ وہ والا ٹھیک نہیںیہ ٹھیک ہے۔ دنیا میں عدالتی نظام کی کارکردگی سے متعلق فہرست میں ہم 130ممالک میں سے 126ویں نمبر پر کھڑے ملتے ہیں۔ اسے کیا کہا جائے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر لئے گئے ازخود نوٹس کی آج بھی پیشیاں ہو رہی ہیں اور اس قسم کے چندسو یا ہزار مقدمات نہیں خدا جانے یہ پیشیاں کب تک بانجھ رہیں گی۔ یہ ایوان بالا میں پیش کئے گئے اعداد و شمار ہیں کہ اکیس لاکھ مقدمات فیصلوں سے دور ہیں۔ حکومت کا حال بیان کریں تو ہاتھ اپنے گریبا ن پر جا پڑتا ہے ،کیسے کیسے احکامات نادر شاہی جاری نہیں ہوتے جو حکومت کشکول توڑنے کے وعدے اور دعوے کی سپر ہٹ فلم دکھا کر اقتدار میںآ آئی تھی وہ آئی ایم ایف کی چوکھٹ سے لپٹی ہوئی ہے ،تازہ ترین اطلاع مشیر خزانہ کی آئی ایم ایف کو ہر چار ماہ بعد پٹرول لیوی بڑھانے کی یقین دہانی ہے۔ قرضوں کا حال یہ ہے کہ تین سال کے دوران ملکی قرضے میں16ہزار ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 41ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ حکومت قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں سات ہزار460ارب روپے ادا کر چکی ہے ہماری ڈوبتی معیشت ہماری سرحدوں پر منٖڈلاتے خطروں سے بڑھا خطرہ ہے۔ ڈالر ہماری معیشت کے لئے لائف سیونگ ڈرگ بن چکا ہے اور حال یہ ہے کہ ہماری برآمدت کا حجم سکڑتا جارہا ہے پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین کے مطابق گذشتہ 20 برسوں میں پاکستان کی جی ڈی پی میں ملکی برآمدات کا حصہ مزید کم ہو ا ہے۔ پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں برآمدات کا حصہ 2000 ء میں 16 فیصد تھا جو 2020 میں کم ہو کر 10 فی صد رہ گیا ہے جبکہ ویتنام جیسے چھوٹے ملک کا عالمی برآمدات میں حصہ پاکستان سے کئی گنا ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جسے کوئی ایٹم بم دور نہیں کرسکتا لیکن کس سے بات کریں جس کے سامنے دکھڑا روئیں وہ حلوہ پکانے کا کہہ دیتا ہے۔