معزز قارئین!۔ پرسوں (18 ذوالحجہ ،30 اگست کو )پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے ’’ عید ِ غدیر‘‘ کا تہوارمنایا، جب 18 ذوالحجہ 10 ہجری کو ’’ غدِیر خُم‘‘ کے مقام پر حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے ، حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا ہاتھ پکڑ کر صحابہ ٔ  کرام ؓ سے خطاب کرتے ہُوئے اُنہیں ’’ اعلان ِ ولایت علی ؑ ‘‘ کی بشارت دِ ی تھی۔ اِس لحاظ سے اہل ِ پاکستان کے لئے 18 ذوالحجہ (30 اگست ) کا دِن مُبارک تھا ، جب وزیراعظم جناب عمران خان نے اپنے ساتھی وزراء (وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی ، وزیر دفاع جناب پرویز خٹک ، وزیر خزانہ جناب اسد عمر، وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چودھری اور وزیرمملکت برائے امور خارجہ جناب شہریار آفریدی ) سمیت ، "G.H.Q" راولپنڈی میں وطن عزیز کی ’’عسکری قیادت ‘‘ ( جنرل قمر جاوید باجوہ) اور اُن کے نائبین سے 8 گھنٹے تک ملاقات کی۔ 

ملاقات کو "Briefing"کا نام دِیا گیا ۔ یعنی۔ جناب ِ وزیراعظم کو ’’معلومات مہیا کرنے کی ملاقات ! ‘‘۔ پاک فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ (I.S.P.R) کے مطابق ۔ ’’جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم عمران خان کا استقبال کِیا ، پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کِیا ، وزیر اعظم صاحب نے یادگار شُہدا پر حاضری دِی اور پھولوں کی چادر چڑھائی ، آرمی چیف نے ’’جی ۔ ایچ۔ کیو ‘‘ میں موجود اپنے نائبین سے ، وزیراعظم صاحب کا تعارف کرایا اور علاقائی سلامتی کی صورتحال ، افغانستان ، لاحق خطرات ، کراچی آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ کِیا اور وزیراعظم صاحب کو بتایا کہ ’’ پاک فوج ، مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے تمام تر قیمت ادا کر کے ہر قسم کی قربانی دے گی‘‘۔ 

خبروں کے مطابق ۔’’ جنابِ وزیراعظم نے پاک فوج کو اپنی صلاحتیں بڑھانے کے لئے تمام وسائل مہیا کرنے کا اعلان کِیا ۔اُنہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی قربانیوں کو سراہا اور کہا کہ ’’عوامی حمایت اور تعاون سے ہم تمام اندرونی اور بیرونی "Challenges" پر قابو پا لیں گے ‘‘۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات جناب فواد چودھری نے اِس ملاقات کا ’’حاصل ‘‘ (خلاصہ) یہ پیش کِیا ہے کہ ’’ حکومت ، فوج ایک ہی "Page" پر ہیں اور کتاب ؔ بھی ایک ہی ہے!‘‘۔ معزز قارئین!۔ جب جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سپہ سالار تھے اور میاں نواز شریف وزیراعظم تو، اُن دِنوں بھی ، مسلم لیگ (ن) کے "Media Managers"کی طرف سے عوام کو بتایا جاتا تھا کہ ’’ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتیں ایک ہی "Page" پر ہیں !‘‘۔ 

مجھے یاد ہے کہ ’’ 4 فروری 2016ء کو وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف دہشت گردی سے متاثرہ ، صوبہ پختونخوا کے ایک قصبہ کے دورے پر تھے ، جب جنرل راحیل شریف ؔنے فوجی جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور وزیراعظم نواز شریف ؔ مہمان / مسافر کی سیٹ پر تو ، وہاں موجود مسلم لیگ (ن) کے چند کارکنوں نے  ’’دونوں شریف بھائی ، بھائی ‘‘ کا نعرہ لگا دِیا۔ اِس پر 6 فروری 2016ء کو ’’ دونوں شریف بھائی بھائی‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ’’ 23 مارچ 1970ء کو ، جب نیشنل عوامی پارٹی ( چین نواز ) کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی ’’ پی ۔ آئی ۔ اے ‘‘ کے طیارہ پر ڈھاکہ سے لاہور ائیر پورٹ اُترے تو، ائیرپورٹ پر نیشنل عوامی پارٹی اور جناب ِ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ کارکنوں نے نعرے لگائے کہ’’ بھاشانی ، بھٹو بھائی بھائی‘‘۔ 

اِس پر مولانا بھاشانی نے نعرہ بازوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ میرے عزیزو! بھاشانی کسان کا بیٹا اور کسان ؔہے ، جب کہ بھٹو جاگیر دار کا بیٹا اور جاگیر دارؔ ۔ہم دونوں بھائی بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ جنرل راحیل شریف نے تو ، حکومت کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے مالیت کے دو پلاٹ ، دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرتے ہُوئے شہید ہونے والے فوجیوں کے ’’شُہداء فنڈ ‘‘ کو وقف کردئیے ہیں ، جب کہ وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کو تو، دولت جمع کرنے کا جنون ہے۔ پھر ’’دونوں شریف ؔ بھائی بھائی ‘‘ کیسے ہوسکتے ہیں ؟‘‘۔ انگریزی زبان میں ایک محاورہ (Phrase) مُستعمل ہے کہ"We are on the Same Page" لیکن، ہمارے سیاستدان اکثر اپنے اتحادیوں اور مخالفین سے قربت کا اظہار کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ ’’ ہم دونوں (فریق ) ایک ہی "Page" پر ہیں! ‘‘۔ 

مجھے ’’جواں سال ‘‘ فواد چودھری کو داد دینا پڑے گی کہ ، اُنہوں نے ’’ حکومت ، فوج ایک ہی "Page" پر ہیں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کتاب ؔ بھی ایک ہی ہے!‘‘۔فواد چودھری صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ کتاب ؔسے اُن کی مراد ’’الکتاب ‘‘ ( قرآنِ پاک )ہے یا ’’ آئین پاکستان‘‘ کی مطبوعہ ، کتاب ؔ؟ ۔ قرآن پاک کی طرح تورات ؔ ، زبور ؔ اور انجیلؔ کو بھی آسمانی کتابیں کہا جاتا ہے اور اُن کے مجموعے ۔ "Bible"کے بغوی معنی بھی تو  "Book" ( کتاب ) ہی ہیں ۔ ہندوقوم اپنی مقّدس کتابوں ’’رامائن ‘‘ اور ’’ مہا بھارت‘‘ کو "Paviter Granth" کہتے ہیں ۔ گرنتھؔ (Granth) کے معنی بھی کتاب ؔہے ۔ سِکھوں کی ’’مقّدس کتاب ‘‘ کو بھی ’’گرنتھ صاحب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ علاّمہ اقبالؒ نے "Das Kapital" (سرمایہ) کے مصنف ، جرمن ماہر معیشت اور سوشل فلاسفر "Karl Marx" کی تعریف کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

نِیست پَیغمبر ، ولیکن ، دَر بغل ، دارد کتاب !

…O…

یعنی۔ (کارل مارکس ) پیغمبر تو نہیں لیکن، صاحب کتاب ؔ ہے ‘‘ ۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے، ’’ جے ۔ یو ۔ آئی ‘‘ (جمعیت عُلماء اسلام فضل اُلرحمن گروپ) کے عبدالغفور حیدری صاحب کی درخواست پر ’’ جے۔ یو۔ آئی‘‘ کو ’’بند کِتاب‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حْکم دِیا تھا ۔اِس سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ’’جے۔ یو ۔آئی ‘‘ کو ’’کھْلی کِتاب‘‘۔ کا انتخابی نشان الاٹ کِیا تھا ۔ بند کتاب ؔکا نہیں ۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف یہ تھا کہ ’’ بھولے بھا لے عوام انتخابات میں ’’ بند کتاب‘‘ کے انتخابی نشان کو قرآن پاک ؔ سمجھ لیں  گے!‘‘ ۔ اِس کے باوجود معزز قارئین! ۔ 11 مئی کے عام انتخابات میں ’’ جے ۔ یو ۔ آئی ‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ ) ، بھاری مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکی۔اِس سے پہلے بھی کانگریسی مولویوں کی باقیات کا ہر انتخابات میں ،یہی حشر ہوا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ’’ فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ (مرحوم) مفتی محمود کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے اور دوسری وجہ یہ کہ ’’فضل اُلرحمن صاحب کی ’’ جے۔ یو ۔ آئی ‘‘ کے تقریباً سبھی لوگ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا نام عزت و احترام سے نہیں لیتے؟‘‘۔ 

اِس سے قبل 12 جولائی 2007ء کو (اُن دِنوں) متحدہ مجلس کے صدر قاضی حسین احمد (مرحوم) ، سیکرٹری جنرل فضل اُلرحمن صاحب اور رُکن عبدالغفور حیدری صاحب نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے اُن افسروں اور اہلکاروں کو شہید نہیں کہا جاسکتا ، جنہوں نے ( مولوی عبدالعزیز کی ) لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری کی تھی ‘‘۔ قاضی حسین احمد تو ، وفات پا چکے ہیں لیکن، حیرت تو یہ ہے کہ ’’ اُس کے بعد حکومت ِؔ پاکستان اور پاکستان کی عسکری قیادت ؔچونکہ ( شاید) ایک کتاب ؔکے ایک "Page" پر نہیں تھے ، اِسی لئے فضل اُلرحمن صاحب کو 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی جرأت ہو گئی ہے ؟۔ 

محترم وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب!۔ آپ کے وزیر فواد چودھری کا ’’ ایک کتاب اور ایک "Page" کا نکتہ (A Mystical Significance ) خوب ہے !۔ ہمارے سابق حکمرانوں کی حماقت یہی تھی کہ وہ ’’ الکتاب ‘‘ کے بجائے ’’ اہل کتاب ‘‘ سے دوستی کا شوق رکھتے تھے ؟‘‘۔