یہ ایک نتھرے اور نکھرے دن کا آغاز ہے۔ دھرتی نے گویا خود کو دھو ڈالا ہے۔میر و سلطاں سے بیزار زمیں نے ایسی توانا انگڑائی لی ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر کے رکھ دیا ہے۔ جھٹکا ایسا قیامت خیز تھا کہ بڑے بڑے دیوہیکل ہمالیہ بھی اس میں خود کو سنبھال نہیں سکے۔ عام انتخاب کہاں ، یہ توگویاکوئی آندھی اور طوفان تھا، جو جب تھما تو قافلے کی رفتار ہی نہیں ، سالارانِ قافلہ کی دستار بھی گم ہو چکی تھی ۔ بات دستار تک رہتی تو بھی کیا برا تھا، یہاں تو مگر کئی سر ہی غائب غلہ ہو چکے تھے ۔ عمران وہ سیاسی قاتل ثابت ہوا ، پروین شاکر کی بات پر جو قانع نہ رہ سکا۔ سب کاٹ کے اس نے برابر کر دیا ؎ قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے جو اس سے بچا ، اس کے ووٹرنے صاف کر دیا۔ وہ سب فصلی بٹیرے جو دانے دنکے کی امید اور امکان پر تحریک انصاف کی منڈیر پر آ بیٹھے تھے، بے چارے پر کٹا کے اندھے کنووں میں جا گرے ۔ہمیشہ یاد رکھا جانے والا اپنی طرز کا یقینا یہ ایک منفرد الیکشن ہے ، کچھ ایسے ہی مناظر قوم نے 2013ء کے الیکشن میں اس وقت دیکھے تھے ،جب مشرف کی ق لیگ کے سب برج الٹ گئے تھے اور سب منارے ڈھے گئے تھے ۔یہ پہلا الیکشن ہے، جس میں کراچی نے متحدہ کے جبر سے نجات پائی اورثابت کیاجبر کبھی تادیر نہیں رہتا۔ یہ پہلا الیکشن ہے جس میں گویا پرانی پاکستانی سیاست اپنا چہرہ گم کر بیٹھی ہے۔ ذرا سوچئے تو سہی ، کبھی کسی نے ایسی پاکستانی سیاست کا تصور بھی کیا تھا کہ جس میں کسی بھی سیٹ پر مکرم فضل الرحمٰن صاحب براجمان نہ ہوں ،وہ فضل الرحمٰن صاحب سیاست کا جنھیں مقناطیس مان لیا گیا تھا، یعنی سیاست جس کے گرد یوں سمٹ آتی تھی ، جیسے مقناطیس کے گرد لوہا ۔وہ مولانا فضل الرحمٰن کہ جو غلطی سے ایک بار اپوزیشن میں بیٹھ گئے تھے اور پھر زندگی یہ داغ اقتدار سے دھوتے رہے۔ آدمی سوچتا ہے ، یہ کیسا الیکشن ہے، جس میں مکرم سراج الحق صاحب اپنے ہی گھر میں ہار گئے، اور بجلی کی کڑک کی طرح مخالف پر جھپٹ پڑنے والے عابد شیر علی، جس میں سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے دونوں بیٹوں سمیت ، جس میںاڑان بھر کے آئے مسافر پرندے فردوس عاشق اعوان ، نذر گوندل اور ندیم چن ، جس میں جیپ کے ڈرائیور سمجھے جانے والے چودھری نثار اور جس میں پوری شان و شوکت سے لائے گئے مصطفیٰ کمال یوں ڈھے گئے، جیسے موسلا دھار بارش میں غریب کا کچا مکان۔ بہرحال بہت کچھ اس الیکشن نے ماضی مرحوم اور یادش بخیر کر کے رکھ دیا۔ عوام نے میاں صاحب کا بیانیہ بانجھ کر دیا۔ یہ بیانیہ بجائے خود عجیب و غریب چیز تھی۔ کئی بار عرض کیا کہ یہ قوم اتنی پڑھی لکھی نہیں کہ ایسے بیانیے سمجھ سکے۔ نہ یہ قوم ایسا ہاضمہ رکھتی ہے کہ اپنی ہی فوج کے خلاف چلائی گئی انتخابی مہم ہضم کر سکے ، چنانچہ قوم نے خود میاں صاحب ہی کو ہضم کرڈالا۔ میاں صاحب نے خود بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے میں کمی نہ کی تھی۔ بہت سی اور باتیں بھی ہوں گی اور یقیناہوا کرتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے امریکی قوم بھی انکار نہیں کر سکتی، ہم تو پھر ایک حساس سیکیورٹی کے حامل ملک کے باسی ہیں۔ آپ سادہ سی ایک بات پر غور کیجیے۔ کسی بھی عنوان سے سہی، فوج کوجب ایک شخص ہدف بناتا ہے تو کیا وہ سوچتا نہیں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا کئی لاکھ فوج کی حمایت اور ووٹ سے وہ شخص محروم نہیں ہو جاتا؟ اور کیا سادہ فوجی ووٹ سے محرومی مقدر ہوگی؟ جی نہیں ، ان فوجیوں کے کئی خاندان ہوتے ہیں، ظاہر ہے ،کئی لاکھ خاندان ایسا شخص کھو دیتا ہے۔ بہت سے سابقہ فوجی ہوتے ہیںاور پھر ان کے دوست احباب۔ کیا گالی کھا کر اور ہدف بن کر بھی وہ آپ ہی کو ووٹ دیں گے؟بات اتنی بھی کم نہ تھی، میاں صاحب نے مگر کچھ اور بھی ووٹ کھوئے ،عرض کیا یہ قوم بہت پڑھی لکھی نہیں ، یہ ایک جذباتی قوم ہے۔ ممتاز قادری کے معاملے میں بھی ووٹر ناراض ہوا۔ اور کم نہیں۔ ختم نبوت میں کھو دی گئی ساکھ نے لاکھوں ووٹ ہوا میں تحلیل کر دئیے۔بھارت کے متعلق نرم گوشے نے ان لوگوں کو متنفر کر دیا، دو قومی نظریہ جن کے ہاں آج بھی اولیں ترجیح ہے۔ ان کے شکوک و شبہات کو تقویت اب الیکشن کے بعد کا جارحانہ بھارتی رویہ بھی دے رہا ہے ۔ ایسا زہریلا پروپیگنڈہ انڈیا کے میڈیا پر جاری ہے گویا میاں صاحب نہیں ، پاکستان سے مودی ہار گیا ہو۔ یہاں تک کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کو باقاعدہ اس پر ردِ عمل دینا پڑا۔ بات یہاں تک بھی محدود نہ رہی تھی ، عدالتوں سے ہونے والے فیصلوں نے بھی عام آدمی کوبہرحال متاثر کیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں ، پولنگ اسٹیشن کے باہر، اس عاجز نے ووٹ دینے والے دو نوجوانوںکی جو گفتگو سنی ، وہ اگر عرض کر دی جائے تو ن لیگی دوستوں کا دل دکھے گا، بہرحال کرپشن کے حوالے سے رائے عامہ میاں صاحب کے حق میں نہ تھی، ظاہر ہے، ہر شخص تو ن لیگ میں نہیں ہوتا، چنانچہ لوگ ذرا سا مختلف بھی سوچتے ہیں۔ پھر ایون فیلڈ کے جن اپارٹمنٹس سے میاں صاحب کو کبھی انکار تھا، عام آدمی میاں صاحب کوصاف طور پر وہاں سے نکل کے پاکستان آتے دیکھ چکا تھا۔ ساکھ تباہ ہو کے رہ گئی تھی۔ بیانیہ کوئی ایسی گیدڑ سنگھی تو ہوتی نہیں کہ جو اتنے سارے سوالوں کا جواب اور زخموں کا مرہم ہو جائے ؎ مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا بہرحال آج کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب کے بیانیے سے ہی نہیں، قوم شہباز شریف کے بنائے پلوں سے بھی آگے گزر آئی ہے۔مون سون کا پانی شہباز شریف کے بنائے پلوں کے نیچے بہہ رہا ہے۔ اسی گدلے پا نی میں کہیں ن لیگ اور ا س کی امیدیں بتاشے کی طرح تحلیل ہو گئی ہیں۔اس بار کی بارش نے سب دھو ڈالا ہے۔ جو بچا ہے وہ نیا نیا ہے۔بہت نیا نیا ۔ قوم نے عمران کو پچھلے پانچ سال سنا اور اپنا ووٹ اس کے ڈبے میں ڈال دیا ہے۔ گیند اب عمران کے کورٹ میں ہے اور یہیں سے عمران کا اصل امتحان شروع ہوتاہے۔امام احمد بن حنبل نے کئی عباسی خلفا کا جبر اپنے ناتواں کندھوں پر سہا، آخری نے حربہ بدل لیا۔اس نے دسترخوان پر بٹھایا اور عزت و احترام سے پیش آکے موقف میں تبدیلی لانے کی استدعا کی ۔ امام نے فرمایا ، یہ میرے لیے کئی گنا بڑی آزمائش تھی۔حکومت کی نعمت عمران کو تقریبا مل گئی۔ قوم کی امیدوں پر پورے اترنے کی کڑی آزمائش کا اب عمران کو سامنا ہے۔ ہم دعا گو ہیںکہ خدا پاکستان کو آگے بڑھنے میں مدد دے۔ ایک عرصے سے یہی اس قوم کی تڑپتی ،مچلتی ، سسکتی اور پامال خواہش ہے۔