سندھ میں سردیوں کی آمد صرف خنکی سے بھری ہوئی، ہواؤں سے محسوس نہیں ہوتی۔ جب جلدی سے چھاجانے والی شام کے وقت انسان آسمان میں دیکھتا ہے، تو اسے سندھ کے آسمان پر بہت سارے پرندے اڑتے نظر آتے ہیں۔ سرد علاقوں کے باسی یہ پرندے گرم پانی کی تلاش میں سینکڑوں اور ہزاروں میلوں کا سفر کرکے جب سندھ میں آتے ہیں،تب ان کے پر نیلی اور سبز رنگ کی جھیلوں میں کھلتے ہیں۔ یہ موسم خوبصورت بھی ہوتا اور یہ موسم خطرناک بھی ہوتا ہے۔ اس موسم میں صرف امیر لوگ نہیں بلکہ غریب لوگ بھی زندگی کی مسرتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر اس موسم میں انسان جس بے رحمی سے شکار کرتا ہے ۔ وہ بہت زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ شکار کا شوق بہت قدیم ہے، مگر اب زمانہ تبدیل ہوگیا ہے۔ اب شکار کے حوالے سے نہ صرف قوانین میں تبدیلی آ ئی ہے بلکہ انسانی شعور تو بڑے عرصے سے شکار کا مخالف رہا ہے۔ سندھ میں جن مقامات کو ’’نیشنل پارک‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے وہاں آپ جا سکتے ہیں اور فطرت سے ایک طرح قربت محسوس کر سکتے ہیں،مگر وہاں پر آپ کسی جانور تو کیا کسی پرندے کا شکار بھی نہیں کرسکتے۔ مگر طاقت اور پیسہ ایسی چیزیں رہی ہیں،جنہوں نے ہمیشہ قانون کو اپنے قدموں تلے روندا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ میں وڈیرے خود بھی شکار کرتے ہیں اور اپنے معزز مہمانوں کے لیے بھی شکار کا اہتمام کرتے ہیں۔ جب سے عرب ممالک سے آنے والے امیر غیرملکیوں کو شکار کا چسکہ لگا ہے، تب سے سندھ میں تو شکار موسمی بزنس بن گیا ہے۔ ایسے بہت سارے امیر عرب ہیں، جنہوں نے سندھ میں اپنے لیے محلات تعمیر کروائے ہیں۔ وہ سال میں چند دنوں کے لیے آتے ہیں مگر وہ چند دن سندھ کے وڈیروں کے لیے کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ بھی امیر عربوں کے تحفظ میں کمی نہیں ہونے دیتی، مگر سندھ کے مقامی وڈیرے تو حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے جانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اس کوشش میں کبھی کبھی بہت بڑے المیے بھی پیش آجاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں میڈیا میں گونج اٹھنے والا معاملہ اس سندھی نوجوان کا تھا ،جس نے تلور نامی پرندے کا شکار کرنے والے عرب شکاریوں کی ویڈیو بنائی اور وہ ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ سرداری اور جاگیرداری سسٹم میں رہنے والے یہ لوگ صدیوں سے سرداروں اور وڈیروں کی تابعداری کرتے آئے ہیں مگر اب دور تبدیل ہو رہا اور اس تبدیل ہوتے ہوئے دور کی علامت وہ سندھی نوجوان بھی تھا جس کا نام ناظم الدین تھا۔ وہ معمولی قسم کا سرکاری ملازم تھا مگر نوجوان تھا اور ہر نوجوان کی طرح اس کے ہاتھ میں موبائل فون بھی تھا اور سوشل میڈیا کا ایک اکاؤنٹ بھی۔ اس اکاؤنٹ پرکراچی کے قریب ملیر نامی علاقے کے رہائشی نوجوان ناظم الدین نے وہ ویڈیو بنائی اور اس ویڈیو کو اپلوڈ کرنے کے جرم میں مقامی وڈیرے جام اویس نے اس نوجوان کو بلاکر مبینہ طور پر ساری رات تشدد کا نشانہ بنایا اور اس وجہ سے وہ نوجوان زندگی کی بازی ہار گیا۔ ناظم الدین جوکھیو کی موت سوشل میڈیا پر طوفان کی صورت اختیار کرتی گئی۔اس کے رشتہ داروں نے نیشنل ہائے وے پر دھرنا دیا اور نہ صرف اپوزیشن بلکہ سندھ حکومت کے اہم ارکان بھی مقتول ناظم الدین جوکھیو کے گھر پر پہنچے اور وزیر اعلی سندھ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ناظم الدین جوکھیو کے قاتل فوری طور پر گرفتار کیے جائیں گے۔ یہ اعلان اس لیے بھی ضروری تھا کہ جس شخص پر ناظم الدین جوکھیو کے قتل کی ایف آئی آر داخل درج تھی وہ شخص پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا سندھ اسمبلی کا ممبر تھا۔ جب ایک ایم پی اے اپنے ووٹرز کو تحفظ فراہم کرنے کے بدلے انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر ان کا قتل کردے تو پھر عوام میں غصے کا طوفان پیدا ہونا بے حد فطری بات ہے۔پیپلز پارٹی کے حوالے سے یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ حکمران جماعت کے اہم عہدے پر ہونے کی وجہ سے جب سندھ میں کسی غریب کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ واقعہ پتھر بن کر ڈوب نہیں جاتا، اب وہ پتے کی طرح تیرتا رہتا ہے اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا کردار دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بھی اس قسم کی وارداتیں کیا کرتے تھے، مگر اس وقت مقامی میڈیا ان کے کنٹرول میں ہوا کرتا تھا اور کسی نہ کسی طرح سے پولیس کو یہ موقع مل جاتا تھا کہ وہ واقعے کو دبادے یا کوئی اور رنگ دے۔ مگر اب انگلی کے ایک اشارے پر سوشل میڈیا جس طرح تحرک میں آتا ہے، اس سے وڈیرے اور سردار تو الگ وہ جس سے تعلق رکھتے ہیں وہ حکومتیں بھی ہل جاتی ہیں۔ اس بار بھی ناظم جوکھیو کے بے رحمانہ قتل پر سندھ حکومت ہل گئی۔ اس لیے سندھ حکومت کے دو اہم وزیر مقتول ناظم جوکھیو کے رشتہ داروں کے پاس پہنچے اور ان سے میڈیا کے سامنے وعدہ کیا کہ ناظم جوکھیو کیس میں ملوث جوابدار فوری طور پر گرفتار کرلیے جائیں گے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا، جب وڈیرے سندھ میں متوازی حکومت کا نام تھے، مگر اب وڈیروں میں وہ طاقت نہیں رہی جو پہلے تھی مگر اب تک ان کے ذہنوں سے ماضی کے نشے کا اثر نہیں اترا۔ وہ جب بھی اپنے حلقے میں کسی غریب کو بغاوت کی راہ پر چلتا دیکھتے ہیں،تب ان کا ہاتھ ہتھیار کی طرف بڑھتا ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ فکر لاحق ہے کہ ان کی سیاسی شہرت میں بدستور کمی آ رہی ہے،مگر ایسے واقعات تو پیپلز پارٹی کے سیاسی زوال میں ایک طرح کی تیزی پیدا کر رہے ہیں۔ اب ایک طرف این جی اوز والے ناظم جوکھیو کو شہید ماحولیات قرار دے رہے ہیں اور وہ بات بلاول زرداری کو بھی سمجھ میں آ رہی ہے مگر سندھ کے عام لوگ اور خاص طور پر وہ لوگ جو مقتول ناظم الدین جوکھیو کے ورثاء ہیں۔وہ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ ایک پرندے کے لیے ایک نوجوان کو قتل کیا گیا؟ پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنما عوام کا غم وغصہ کم کرنے کے لیے انہیں بار بار کہتے ہیں کہ بلاول صاحب نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے مگر وہ مظلوم لوگ جو ہر دن فریادی ہیں۔ جن کو کسی قسم کا انصاف نہیں ملتا۔ جن کو صاف اردو بھی نہیں آتی وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی اور سندھی کی آمیزش میں لبریز اردو میں جو حق اور انصاف کی بات کرتے ہیں،وہ بات سمجھ میں بھلے نہ آئے مگر دل پر اثر کرتی ہے۔ ویسے بھی فریاد کی زباں تو ایک ہی ہوا کرتی ہے۔ سندھ میں فریاد کرنے والے مظلوم لوگ لسانیات کے ماہرین نہیں ہیں۔ وہ اپنی زندگی جیسی بولی بولتے ہیں۔ ان کے بولوں پر اگر آپ غور کریں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ جب پیپلز پارٹی کے رہنما ان کے ساتھ بلاول کی بات کرتے ہیں تو بلاول کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کو اگر غالب کی زباں میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں سننے کے لیے یہی الفاظ ملیں گے: ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘