مکرمی! پاکستان کا بجٹ مسلسل کئی سالوں سے خسارے میں چل رہا ہے۔ سیدھی اور سادہ سی بات ہے کہ ہماری آمدنی ہمارے اخراجات کا ساتھ نہیں دے رہی جس سے ہمیں مسلسل خسارے کا بجٹ پیش کرنے کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔ 1952 کے بعد پاکستان کی ترقی کرنے کی شرح پہلی بار منفی میں گئی ہے یعنی ہم ترقی معکوس کی جانب سفر کر رہے ہیں پیچھے کی جانب جا رہے ہیں۔اس سے قبل جیسے تیسے کسی نہ کسی طرح ہماری معیشت رینگ رینگ کر کچھ نہ کچھ سفر طے کر رہی رہی تھی۔ کورونا سے قبل پاکستان کی شرح نمو تین فیصد کے حساب سے بڑھنے کی توقع تھی لیکن کورونا نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کو مثبت میں لانے کیلئے مزید نوکریاں، کاروبار، زراعت کی بڑھوتری کے منصوبے شروع کرنے ہوں گے لیکن بد قسمتی سے موجودہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ چینی گزشتہ دور حکومت کے بیشتر عرصہ میں پچاس روپے کے قریب رہی اور اب چینی نوے روپے کلو کے حساب سے بک رہی ہے۔ آٹا جو گزشتہ ادوار میں 38 روپے سے لیکر 40 روپے کے درمیان تھا اب اس کی فی کلو کی قیمت ساٹھ روپے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ افراط زر کی شرح صرف 3.4 فیصد تھی جو بڑھ کر 16 فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔۔اصل مسئلہ وسائل کی فراہمی یا عدم فراہمی کی بجائے افراد کی نا اہلی اور اہلیت کا ہے جب تک ہم اہل افراد کے ہاتھ باگ ڈور نہیں دیں گے تب تک یہ خسارے کا بجٹ ہی ہمارا مقدر بنتا رہے گا۔ (جمشیدعالم‘ لاہور)